آخر ہے کیا یہ سول سوسائٹی

26 جنوری 2016
صحافی اور سول سوسائٹی کے اراکین نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر سانحہ آرمی پبلک اسکول کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ — اے پی۔
صحافی اور سول سوسائٹی کے اراکین نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر سانحہ آرمی پبلک اسکول کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ — اے پی۔

"ابھی میں جاتا ہوں کیونکہ ہم سب نے ایک پر امن احتجاج منعقد کیا ہے وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے، پھر ملاقات ہوگی۔" حیدر یہ کہتے ہوئے اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگیا تو میں نے بھی گھر کی راہ لی۔

گھر میں ایک مصروف دن گزارنے کے بعد کمپیوٹر کھولا اور مختلف سوشل میڈیا سائٹس کا جائزہ لیا تو سول سوسائٹی کے احتجاج کی خوب پذیرائی نظر آئی۔ شہریوں کی جانب سے وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کے لیے کیے گئے سول سوسائٹی کے اقدام کو سراہا گیا تھا، ساتھ ہی مظاہرے کی کچھ تصاویر بھی تھیں۔ بچے خواتین اور حضرات پوسٹرز اور بینرز، جس پر نمایاں انداز میں وی آئی پی کلچر کے خلاف کلمات درج تھے، اٹھائے اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کروا رہے تھے۔

ایک باشعور معاشرے کی عکاسی کا نمونہ سول سوسائٹی کے اس اقدام نے خوب پیش کیا تو جی خوش ہو گیا۔ سوچا کہ کیوں نہ اس تحریک کا ایک سرسری سا جائزہ پیش کیا جائے کہ سول سوسائٹی کی اصطلاح ہے کیا، اور دنیا اور پاکستان میں کتنی سر گرم عمل ہے۔

جب آپ کو کسی سے شکایت ہو اور آپ کی بات نہ سنی جائے، تو آپ توجہ دلانے کے لیے کیا کریں گے؟ چیخیں گے، احتجاج کریں گے اور کسی بھی ایسے طریقے سے اپنی موجودگی اور پریشانی کا احساس دلائیں گے کہ آپ کی شکایت کا ازالہ کیا جائے۔ تو یہی کام سول سوسائٹی کا بھی ہے۔ سول سوسائٹی کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کوئی بھی ایسا عمل جس سے عوام براہ راست متاثر ہوں، اس کی نشاندہی کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس کا حل تلاش کرنا حکومت کی۔

سول سوسائٹی دراصل کسی بھی معاشرے میں سرکاری اور نجی اداروں کی موجودگی میں تیسرے ستون کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی بنیاد عام شہری ہوتے ہیں۔ معاشرے کا ہر فرد، ہر طبقہ یکساں قوانین کا پابند اور یکساں سہولیات کا حقدار ہے۔ اور اگر کہیں اس کے بنیادی حقوق متاثر ہوں یا میسر نہ ہوں تو ایک مؤثر تحریک کے ذریعے اپنے حقوق کا حصول اور تحفظ کیا جاسکتا ہے، اور مل کر اس نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی جاسکتی ہے۔

کسی بھی معاشرے میں ایسی شہری تنظیمیں حکومت کا حصہ تو نہیں ہوتیں، لیکن مروجہ عالمی قوانین کے نفاذ اور حقوق کی فراہمی کے لیے عوام کی آواز ضرور ہوتی ہیں۔

دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں میں باقاعدہ سول سوسائٹی کی تنظیم متحرک نظر آتی ہے جو ہر غیر قانونی اور بنیادی حقوق کے منافی اقدام کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ اور اب تو ان کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے اور ’’گلوبل سول سوسائٹی‘‘ کی صورت میں پھیل چکا ہے جس کے تحت دنیا بھر کے ممالک میں موجود شہری تنظیمیں عالمی نیٹ ورک کے ذریعے ظلم اور ناانصافی کے خلاف، قانون کی بالادستی، عالمی امن و امان کے قیام اور بنیادی انسانی حقوق کی یکساں فراہمی کے لیے اپنی آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔

اگر دنیا بھر میں سول سوسائٹی کی تحاریک کا جائزہ لیا جائے تو اس کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ جب گذشتہ برس ترکی کے ساحل پر شامی مہاجر بچے کی تصاویر منظر عام پر آئیں تو دنیا بھر میں انسانیت کی اس ناقدری پر احتجاج کیا گیا اور ایلان کے ساتھ عالمی برادری خاص طور پر یورپ کے روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف مختلف طریقوں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔

مراکش میں سینکڑوں افراد نے ایلان کے لباس سے مماثلت کے کپڑے زیب تن کیے اور ساحل کنارے ایلان کی شبیہہ اختیار کر کے اس ناروا سلوک کی نشاندہی کی تو سڈنی میں ہزاروں افراد نے شمعیں روشن کر کے ایلان کی موت پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

شام میں جاری جنگ اور بمباری کے خلاف لندن کی مقامی آبادی نے جنگ کے خلاف پر امن ریلی نکالی اور ہزاروں افراد نے شرکت کر کے شام کے شہریوں کو احساس دلایا کہ گلوبل سول سوسائٹی کے تحت تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں اور مطالبہ کیا کہ جنگ بندی کر کے انسانیت کی اس ناقدری کو روکا جائے۔

سانحہ پشاور کے بعد لال مسجد کے خطیب کے اشتعال انگیز بیانات کے خلاف سول سوسائٹی کے احتجاجی دھرنے میں عوام نے بھرپور شرکت کی اور گزشتہ برس جب دوبارہ سول سوسائٹی اراکین نے لال مسجد کے باہر دھرنا دیا تو ارکان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں جنہیں بعد میں وفاقی وزیرِ داخلہ کی ہدایت پر رہا کیا گیا۔

پاکستان میں سول سوسائٹی بہت منظم تو نہیں تاہم اب پس منظر کچھ تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دہشتگردی کے تسلسل سے ہوتے واقعات ہوں یا معاشرتی نا انصافیاں، سول سوسائٹی متحرک نظر آتی ہے۔

کراچی کا ’فکس اٹ‘ کون بھول سکتا ہے، جب ایک عام شہری نے اپنی عقلمندی اور ہمت سے کام لے کر سائیں سرکار کی ناک میں دم کردیا۔ کراچی کے رہائشی عالمگیر خان نے کھلے مین ہولز کے قریب وزیرِ اعلیٰ سندھ کی تصاویر بنا کر جب 'فکس اٹ' تحریر کیا اور ان کو بند کرنے کا مطالبہ کیا تو کراچی کے تمام شہری عالمگیر خان کے ہم آواز ہو گئے اور اسے ’فکسڈ‘ میں تبدیل کر کے ہی چھوڑا، جبکہ حکومتِ سندھ نے گٹروں پر ڈھکن لگانے کا جو اعلان کیا تھا، اس کا بھی وہی حشر ہوا جو ایسے تمام اعلانات کا ہوتا ہے۔

سول سوسائٹی کا نام سن کر چند لوگوں کے ذہنوں میں سوالات و اعتراضات اٹھتے ہیں جن کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔ جب کبھی بھی سول سوسائٹی کا ذکر ہوتا ہے، تو عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف معاشرے کے اونچے طبقے کے لوگوں کی تنظیمیں ہیں جن کا متوسط اور زیریں طبقے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ تاثر درست نہیں ہے کیونکہ سول سوسائٹی کے نمائندوں میں معاشرے کے تمام طبقات، خصوصاً متوسط طبقے کے لوگ اکثریت میں شامل ہیں، اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں یا لوگ جن مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں، ان کا معاشرے کے عام لوگ صبح و شام سامنا کرتے ہیں، مثلاً وی آئی پی کلچر، دہشتگردی، (شاہ زیب قتل کیس میں) بااثر ملزمان کا کھلے عام گھومنا اور عوامی احتجاج پر گرفتار ہونا وغیرہ۔

اس کے علاوہ یہ بھی ضروری نہیں کہ سول سوسائٹی ایک باقاعدہ غیر سرکاری ادارہ ہو۔ اگر ایک علاقے میں رہنے والے چند لوگ عوامی مسائل کے حل کے لیے ایک تنظیم بناتے ہیں، اور مختلف فورمز پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں، تو یہ بھی سول سوسائٹی ہیں، پھر چاہے ان کا تعلق معاشرے کے کسی بھی طبقے سے ہو۔

شہری حقوق سے آگاہی اور بنیادی سہولیات تک رسائی ہر انسان کا حق ہے لیکن بد قسمتی سے یہ مفادات کی خاطر یا تو حقوق غصب کر لیے جاتے ہیں یا ان کی فراہمی میں پس و پیش سے کام لیا جاتا ہے۔ اس لیے عوام کو آواز بلند کرنی پڑتی ہے اور پاکستان میں تو صورتحال خاصی دگرگوں ہے۔ لہٰذا اس صورت میں عوام کو باشعور ہو کر منظم ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کرسکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

khushnood zehra Jan 26, 2016 04:02pm
بہت خوب ، ایک اہمیت کی حامل تحریر ۔ یقیناً سول سوسائٹی کا متحرک ہونا پاکستان جیسے معاشرے میں خوش آئند اقدام ہے۔