اُدھو داس کی گردن زنی

اپ ڈیٹ 10 فروری 2016
رائے بہادر ادھو داس کے مجسمے کی رونمائی کی نایاب تصویر۔ — dalsabzi.com
رائے بہادر ادھو داس کے مجسمے کی رونمائی کی نایاب تصویر۔ — dalsabzi.com

موضوع پڑھتے ہی آپ کے دل میں یہ گمان پیدا ہوگا کہ شاید کوئی ہندو مذہبی انتہاپسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ایسا ہے بھی اور نہیں بھی کیونکہ جب اُدھو داس کی گردن ماری گئی وہ زندہ نہیں تھا۔

اگر وہ زندہ نہیں تھا تو گردن کیسے اُڑائی گئی؟ جواب یہ ہے کہ سر قلم تو ہوا لیکن زندہ اُدھو داس کا نہیں بلکہ ان کے سنگ مرمر کے مجسمے کا۔ اس کے باوجود وہ آج تک لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ 1979 میں گردن مارے جانے کے 36 اور 19 جنوری 1943 کو اُدھو داس کے انتقال کے ٹھیک 73برس بعد شکارپور کے ہندو اور مسلمانوں نے رائے بہادر کے شکارپور میں قائم ہسپتال میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک جلسہ منعقد کیا۔ جلسے کے شرکاء میں ہندو کم مسلمان زیادہ تھے۔

آخر رائے بہادر اُدھو داس کون تھے۔ رائے بہادر اُدھو داس شکار پور کے ایک معروف تاجر تھے، جنہوں نے شکارپور میں اپنی مدد آپ کے تحت تقسیم ہند سے قبل 1933 میں شہریوں کے لیے ایک ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کے لیے ذاتی طور پر ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ اس وقت کے ایک لاکھ روپے کی مالیت اب کیا ہوگی یہ کوئی ماہر معاشیات ہی بتا سکتا ہے۔

اُدھو داس کے دل میں یہ خیال کیوں آیا، اس حوالے سے شکار پور سے تعلق رکھنے والے کالم نگار نسیم بخاری 20 جنوری 2016 کو سندھی روزنامے عبرت میں شائع ہونے والے اپنے کالم ”آئیں ایک محسن کو یاد کریں“ میں لکھتے ہیں کہ:

”ایک بار رائے بہادر کی والدہ بیمار ہوگئیں۔ شکارپور میں علاج کی مناسب سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شکارپور میں ایک اچھا ہسپتال ہونا چاہیے، اسی بنیاد پر انہوں نے شکارپور ہسپتال کی تعمیر کا ڈول ڈالا۔“

ہسپتال کی تعمیر کے پس منظر میں ایک ہی جذبہ کار فرما تھا اور وہ تھا انسان دوستی کا۔ معروف دانشور ڈاکٹر انور فگار کے مطابق یہی وجہ تھی کہ 30 اپریل 1933 میں ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد ہسپتال کی تعمیر و ترقی میں انہوں نے اپنا تن، من، دھن سب وقف کر دیا۔

ہسپتال کا افتتاح اس وقت کے بمبئی کے گورنر لارڈ برابورن نے کیا تھا۔ تصویر بشکریہ زبیر ہکڑو
ہسپتال کا افتتاح اس وقت کے بمبئی کے گورنر لارڈ برابورن نے کیا تھا۔ تصویر بشکریہ زبیر ہکڑو
ہسپتال کے باہر نصب تختی جس پر ادھو داس کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ تصویر بشکریہ زبیر ہکڑو
ہسپتال کے باہر نصب تختی جس پر ادھو داس کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ تصویر بشکریہ زبیر ہکڑو

ایک طرف تو تقسیم ہند کے معاملات عروج پر تھے تو دوسری جانب اُدھو داس ہسپتال کے لیے سندھ میں انہیں چندے کے حصول میں دشواری کا سامنا تھا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے اپنا رخ بمبئی کی جانب کیا اور وہیں چل بسے۔ اپنے ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنے والے اُدھو داس کی موت ان جیسے کسی اور سماجی کارکن کے نام سے منسوب ہسپتال میں ہوئی۔ اُدھو داس ہسپتال شکارپور کے باہر آویزاں دو انگریزی اور ایک سندھی تختیوں پر ایک سا ہی مضمون درج ہے۔ جس کا متن یوں ہے:

”سرگواسی، رائے بہادر اُدھو داس تارا چند 73 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اس قربانی کے مجسمے نے شکارپور میں اپنے ہسپتال روپی مندر پر اپنی جان قربان کی۔ صاحب اس ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنے بمبئی گئے، جہاں طویل جدوجہد اور جانفشانی کے باعث بیمار ہوگئے اس لیے انہیں سر ہری کشن ہسپتال علاج کے لیے منتقل کیا گیا۔ جہاں 17 جنوری1943 وہ یہ جہان چھوڑ گئے۔“

اُدھو داس کے اس نیک کام میں ہندوؤں کے علاوہ مسلمان بھی شامل تھے گو کہ ان کی تعداد ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ ان مسلمانوں میں نمایاں نام لیڈی نصرت حاجی عبداللہ ہارون کا ہے جنہوں نے ہسپتال کے لیے 7000روپے کا چندہ دیا۔ خان بہادر عبدالستار آف کوئٹہ نے ایک ہزار روپے، حاجی مہربخش مولا بخش اینڈ سنز کراچی والا نے پانچ سو روپے کا عطیہ دیا۔ لیڈی نصرت حاجی عبداللہ ہارون کے نام سے ہسپتال کے داخلی دروازے کے دائیں جانب ایک قدیم عمارت موجود تھی۔ یہ عمارت میں نے دیکھی تھی لیکن اب اس عمارت کو مسمار کر دیا گیا ہے۔

آئیے اب ذکر کرتے ہیں اُدھو داس کے مجسمے کا۔

یہ مجسمہ سفید سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا جو ان کی خدمات کے صلے میں ہسپتال کے بیرونی دروازے کے چبوترے پر لگایا گیا تھا۔ ضمیر اعوان کے مطابق مجسمے کو سب سے پہلے اس وقت نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جب مسجد منزل گاہ کا واقعہ شروع ہوا۔ شر پسندوں کی نظریں اُدھو داس کے مجسمے پر تھیں کہ کسی بھی طرح اس مجسمے کو زمین بوس کیا جائے، اس لیے مجسمے کو سفید رنگ کے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔

تقسیمِ ہند کے بعد اس مجسمے پر وقتاً فوقتاً کئی حملے ہوتے رہے۔ حملہ آوروں کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی طرح مجسمے کے ناک کان کاٹے جائیں، لیکن اس حوالے سے انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ مجسمے کو مسمار کرنے کا آخری حملہ 1979 میں ہوا۔ شکارپور کے مقامی صحافی زاہد نون کے مطابق ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے شکارپور میں ایک ریلی منعقد کی گئی۔ ریلی کے شرکاء کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے آہنی اوزار تھے ان افراد نے مجسمے پر ہلا بول دیا اور بالآخر مجسمے کو گرا کر دم لیا۔

مجسمہ ہسپتال کے باہر اس چبوترے پر نصب تھا، مگر اب یہاں نہیں ہے۔ تصویر بشکریہ ضمیر اعوان
مجسمہ ہسپتال کے باہر اس چبوترے پر نصب تھا، مگر اب یہاں نہیں ہے۔ تصویر بشکریہ ضمیر اعوان

بعدِ ازاں یہ مجسمہ غائب ہوگیا لیکن اب یہ سندھالوجی ڈپارٹمنٹ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مجسمہ وہاں کب، کیوں اور کیسے پہنچا۔ اس حوالے سے معلومات کے لیے ہم نے ڈپارٹمنٹ کے سابق چیئرمین محمد قاسم ماکا سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مجسمہ ڈاکٹر غلام علی الانا کے دور میں لایا گیا تھا، بہتر ہے کہ ان سے بات کی جائے۔ غلام علی الانا صاحب سے رابطہ ایک ہفتے بعد ہوسکا۔ جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم رائے بہادر ادھو داس کے مجسمے کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجسمے کی سندھالوجی منتقلی کی کہانی یوں بیان کی:

”یہ غالباً 81-1980 کی بات ہے، مجھے شکارپور سے کسی صاحب نے فون کیا۔ مجھے ان کا نام یاد نہیں لیکن وہ ذات کے آغا تھے۔ انہوں نے بتایا کہ شکارپور کے ہسپتال کے باہر اُدھو داس کے مجسمے پر ایک مذہبی تنظیم کے لوگوں نے حملہ کر کے اس کی گردن اُڑا دی اور ہاتھ پیر توڑ دیے، برائے مہربانی اس مجسمے کو سندھالوجی منتقل کر کے اس کی اصل شکل میں بحال کریں۔

"میں نے محکمے کے کچھ دوستوں کے تعاون سے مجسمے کو، جو بہت ہی شکستہ حالت میں تھا، سندھالوجی منتقل کر دیا۔ منتقل کرنے کے بعد بھی مجھے ایک خوف یہ تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اس مجسمے پر سندھالوجی میں بھی حملہ ہوجائے۔ ہم نے مجسمے کو روشن شاہ راشدی میوزیم میں ایک دروازے کے پیچھے رکھ کر کپڑے سے ڈھانپ دیا تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ پائے۔

"جب بھی میوزیم میں کوئی پروگرام ہوتا تھا تو ہم اس حوالے سے خاصے محتاط ہوتے تھے کہ کوئی اس طرف نہ جا پائے۔ ایک بار معروف قانون دان اے کے بروہی سندھالوجی کے دورے پر تشریف لائے۔ بروہی کے ضیاء الحق سے خصوصی مراسم تھے۔ یہ 1980 کی بات ہے۔ ہم نے ان کو میوزیم کا دورہ کروایا اور پوری کوشش کی کہ کپڑے میں ڈھکا مجسمہ ان کو نظر نہ آئے لیکن قسمت نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔ بروہی کی نظر کپڑے سے ڈھکے مجسمے پر پڑ گئی۔ وہ مجھ سے بولے یہ کیا چھپایا ہے؟ مجھے دکھاؤ۔

"میں نے کہا آپ سے اور مذہبی جماعتوں سے ڈر لگتا ہے۔ انہوں نے کہا میں ہر صورت میں دیکھنا چاہوں گا۔ مجبوراً مجسمے سے کپڑا ہٹایا گیا۔ وہ مجسمے کی حالت دیکھ کر خاصے رنجیدہ ہوئے اور بولے یہ تو اُدھو داس ہے۔ یہ تو بہت عظیم انسان تھے۔ ان کے مجسمے کو جلد از جلد اصلی شکل میں بحال کرو۔ اس کے اخراجات میں ادا کروں گا۔ ان کے اس فرمان کے بعد ہم نے مجسمے کی بحالی کی ذمہ داری عظیم چانڈیو اور علی نواز پھلپوٹو کو سونپ دی۔

"ایک اور اہم بات یہ کہ ضیاء الحق کے دور میں سندھ کے ایک صوبائی وزیر صحت احد یوسف جو میری بڑی عزت کرتے تھے مجھ سے ملنے آئے اور کہا آپ سے ایک مشورہ کرنا ہے۔ احد یوسف نے بتایا کہ مذہبی تنظیموں کی جانب سے ان پر دباؤ ہے کہ رائے بہادر اُدھو داس ہسپتال کا نام تبدیل کیا جائے۔

غلام علی الانا کے مطابق "مجھ پر ایک لمحے کے لیے سکتہ طاری ہوگیا۔ میں نے احد یوسف کو کہا ایک شخص جس نے ہسپتال کی تعمیر کے لیے اپنی جان قربان کی، اب اس کے نام سے منسوب ہسپتال کا نام بھی بدلا جائے گا۔ تمہارے پاس اختیار ہے تم یہ کرسکتے ہو۔ لیکن یاد رکھو تاریخ میں تمہیں کبھی بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جائے گا۔ احد یوسف خاموشی سے چلے گئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ میری گفتگو تھی یا کوئی اور وجہ، احد یوسف نے ہسپتال کا نام تبدیل نہیں کیا۔"

بحالی کے بعد مجسمہ اب سندھالوجی میوزیم، یونیورسٹی آف سندھ، جامشورو میں موجود ہے۔ تصویر بشکریہ سرمد سومرو
بحالی کے بعد مجسمہ اب سندھالوجی میوزیم، یونیورسٹی آف سندھ، جامشورو میں موجود ہے۔ تصویر بشکریہ سرمد سومرو
کانوں اور ناک پر کاٹے جانے کے نشانات موجود ہیں۔ تصویر بشکریہ سرمد سومرو
کانوں اور ناک پر کاٹے جانے کے نشانات موجود ہیں۔ تصویر بشکریہ سرمد سومرو
مجسمے کا بایاں ہاتھ موجود نہیں ہے۔ تصویر بشکریہ سرمد سومرو
مجسمے کا بایاں ہاتھ موجود نہیں ہے۔ تصویر بشکریہ سرمد سومرو

اب ہمیں تلاش تھی عظیم چانڈیو صاحب کی۔ ان کا نمبر غلام علی الانا صاحب کے پاس نہ تھا۔ انہوں نے ہماری معلومات میں یہ اضافہ کیا کہ وہ کراچی میں رہتے ہیں، شاید محکمہ ثقافت والوں کو ان کے بارے میں معلوم ہو۔ ہم نے محکمہ ثقافت سے وابستہ محمد علی قادری سے رابطہ کیا تو انہوں نے عظیم چانڈیو صاحب کے بھتیجے جمیل چانڈیو کا نمبر دیا، اور بالآخر جمیل کے ذریعے عظیم چانڈیو صاحب سے رابطہ ہوا۔ چانڈیو صاحب نے مجسمے کی منتقلی کی کہانی یوں بتائی:

”جب میں مجسمے کی باقیات کے حصول کے لیے شکارپور پہنچا تو کوئی یہ بتانے کو تیار نہ تھا کہ رائے بہادر کا مفتوحہ مجسمہ کہاں ہے۔ ہسپتال سے نکل کر میں میونسپل کمیٹی کے دفتر پہنچا۔ وہاں بھی معلومات حاصل کرنا بے سود رہا۔ اس دوران میں نے ایک بات نوٹ کی کہ میرے ہمراہ ملازمین دانستہ طور پر مجھے ایک حصے میں جانے سے روک رہے ہیں۔ میں نے اصرار کیا تو وہ نہ چاہتے ہوئے مجھے وہاں لے گئے، لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا۔

”میرے ہمراہ ملازمین ایک کمرے کے سامنے اس طرح کھڑے ہوگئے کہ کمرہ میری نظروں سے اوجھل رہے۔ میں نے ان سے پوچھا اس کمرے میں کیا ہے؟ انہوں نے بتایا یہ کاٹھ کباڑ کے لیے ہے۔ میں نے کہا اسے کھولا جائے۔ بادلِ ناخواستہ انہوں نے کمرہ کھولا۔ کمرے میں کاٹھ کباڑ تو نہیں تھا، لیکن ایک کے بجائے دو مجسمے تھے (دوسرے مجسمے کا ذکر شکارپور کی اگلی کہانی میں کریں گے)۔ یہ مجسمے بہت شکستہ حالت میں تھے۔ کسی کی گردن الگ تھی تو کسی کا ہاتھ یا پیر۔ لیکن دونوں مجسموں میں ایک بات مشترک تھی ان کے ناک اور کان کٹے ہوئے تھے اور ان کے چہروں پر کالک ملی ہوئی تھی۔

”خیر میں یہ مجسمے لے کر جامشورو آگیا۔ اگلا مرحلہ اُدھو داس کے مجسمے کی بحالی کا تھا۔ یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا لیکن مجھے ہر صورت کرنا تھا۔ سب سے پہلے میں نے مجسمے کا پورا ناپ لے کر ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کی تعداد لکھی۔ دوسرا مرحلہ اس کیمیکل کا حصول تھا جس کی مدد سے مجسمے پر خصوصاً چہرے پر تارکول اور دیگر محلولوں کے ذریعے جو کالک ملی گئی تھی اسے صاف کیا جائے۔ میں نے یہ تمام چیزیں جمع کرنے کے بعد مجسمے کی بحالی کے کام کا آغاز کیا۔ مجھے سب سے زیادہ مشکل اس کے ناک اور کان جوڑنے میں پیش آئی۔ یہ اتنی صفائی اور جذبہ ایمانی سے کاٹے گئے تھے کہ بڑی مشکل سے جُڑ پائے۔“

جب ہم نے عظیم چانڈیو صاحب کو بتایا کہ مجسمے کے ایک ہاتھ میں تو کوئی دستاویز ہے لیکن دوسرا ہاتھ کلائی سے الگ ہے، تو انہوں نے بتایا کہ اُدھو داس کے ایک ہاتھ میں جو دستاویز ہے وہ رائے بہادر کا اعزاز ملنے کی سند ہے۔ جہاں تک دوسرا ہاتھ کلائی سے غائب ہونے کا تعلق ہے تو جب انہوں نے مجسمہ بحال کیا تھا تو اس کی صرف ایک انگلی ٹوٹی ہوئی تھی، کلائی کیسے غائب ہوئی، شاید ایک بار پھر کسی نے جذبہ ایمانی سے مغلوب ہو کر توڑ دی ہوگی۔

ہمیں یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ مجسمے کی سندھالوجی میں منتقلی کی صحیح تاریخ کیا ہے۔اس سلسلے میں ہمارے دوست ذوالفقار ہالیپوٹو نے ہماری مدد کی اور سندھالوجی کے موجودہ چیئر مین سعید منگی کا نمبر دیا۔ سعید منگی نے رابطہ کرنے پر ہمیں بتایا کہ ادھو داس کا مجسمہ 20 مارچ 1980 کو سندھالوجی منتقل کیا گیا۔

ہسپتال کے اندر دواؤں کی کمپنی کا بورڈ۔ اوپر ادھو داس کے اشعار کی تختی نظر آ رہی ہے۔ تصویر بشکریہ ضمیر اعوان
ہسپتال کے اندر دواؤں کی کمپنی کا بورڈ۔ اوپر ادھو داس کے اشعار کی تختی نظر آ رہی ہے۔ تصویر بشکریہ ضمیر اعوان
ادھو داس نے خود اپنا نام زمین پر لکھوایا تھا۔ تصویر بشکریہ ضمیر اعوان
ادھو داس نے خود اپنا نام زمین پر لکھوایا تھا۔ تصویر بشکریہ ضمیر اعوان

ہم سمجھتے ہیں کہ رائے بہادر بہت زیرک اور باشعور شخص تھے۔ غالباً ان کی چھٹی حس نے انہیں آگاہ کر دیا تھا کہ مستقبل میں ان کے مجسمے کے ساتھ کیا ہوگا۔ انہوں نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا کہ ہسپتال میں آنے والے مریض جب ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں، تو انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ جن سیڑھیوں پر پیر رکھتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں وہاں رائے بہادر ادھو داس کا نام لکھا ہوا ہے۔

مذہبی جماعت والوں نے رائے بہادر کا مجسمہ تو گرا دیا لیکن زمین پر لکھا ہوا نام رہنے دیا۔ ہندو کا نام اگر پیروں تلے آ رہا ہے تو کیا مضائقہ ہے بس اس کا مجسمہ نہیں ہونا چاہیے۔ دواؤں کی ایک کمپنی نے ہسپتال کو کچھ اور دیا ہو یا نہ دیا ہو، لیکن اندرونی دروازے کے اوپر کلمہ طیبہ کا بورڈ لگا کر کمپنی کا نام لکھ دیا ہے۔ اس تختی کے اوپر ادھو داس کے اپنے سندھی اشعار تحریر ہیں، جس کا اردو میں ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے:

سب کے دکھ دور کر، سب کا کر کلیان

آہیں دکھیوں کی سن کر رب ہوا مہربان

معاف کر میرے مالک، عیب بھرا انسان

عرض ادھو کی سن، دے تندرستی دان

ہسپتال پر لگی تختیاں حالات کی دھند میں دھندلی ہوتی جا رہی ہیں۔ رائے بہادر ادھو داس کا مجسمہ جس چبوترے پر نصب تھا، اس کے نیچے سندھی میں ان کے یہ اشعار درج ہیں:

”دُکھی بیمار آتے ہیں، سکھی ہو کر گھر جاتے ہیں

روتے چلاتے آتے ہیں، دعائیں کرتے جاتے ہیں

پجاری بن کر میں بیٹھوں، اسی مندر کی سیڑھی پر

دُکھی بیمار جو آئیں، بٹھاؤں ان کو آنکھوں پر۔“

واقعی اُدھو داس مندر کی سیڑھی پر پجاری بن کر بیٹھے ہیں۔ ہسپتال میں آنے والا ہر مریض اور تیماردار ان کے نام پر پیر رکھتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن اب شکارپور کے ہندو باسیوں اور ان کی سماجی تنظیموں نے اپنا طریق کار بدل لیا ہے۔ شکارپور کے ایک مندر میں چیزیں دان کرنے والوں کے نام زمین پر نہیں آسمان پر لکھے ہوئے ہیں۔ آسمان کا سن کر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، اس مندر کی چھت پر جو پنکھے لگائے گئے ہیں، دان کرنے والوں کے نام ان پر لکھ دیے گئے ہیں۔

بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے

تبصرے (28) بند ہیں

yusuf Feb 09, 2016 02:50pm
over sentimental!
yusuf Feb 09, 2016 03:30pm
'dawaon ki company ne kuch diya ho ya na diya ho lekin kalma tayyaba ka board laga diya' ................. criticising without facts..........it is very modern to malign everything related to Islam......Well Done!
Zameer Awan Feb 09, 2016 03:38pm
wah sir Akhtar Balouch Haqeeqat parh kar maza a gaya
Muhammad Mairaj Feb 09, 2016 04:03pm
good work sir.
Nasurullah (NB) Feb 09, 2016 04:06pm
Good people are, and should be remembered regardless of the caste, creed and religious discrimination....+ Excellent writing Baloch Sahab..Thumbs up for you..
Akhtar Hafeez Feb 09, 2016 04:06pm
بہت خوب اختر صاحب۔۔۔
Ammad Ali Feb 09, 2016 04:32pm
Very informative
smazify Feb 09, 2016 05:00pm
بہت تکلیف ہوتی ہے جب انسان اپنی انسانیت سے اتنا گر جاتا ہے کہ انسان تو کیا، بشر تک کہنے کے قابل نہیں رہتا۔ خدائے کریم ادھو داس کے درجات کو بلند سے بلند تر کرے۔ ہمیشہ کی طرح عمدہ تحریر اختر بلوچ صاحب۔ جیو
Asad Muhammad Khan Feb 09, 2016 07:31pm
We Restored The Remains of a Memorial...a job well done!
Asad Muhammad Khan Feb 09, 2016 07:33pm
We Restored The Remains of a Memorial...a job well done!
حسین بادشاہ Feb 09, 2016 07:54pm
خوب۔ بت شکنی کے شوق میں ہم محسن کشی کا ارتکاب کرتے آۓ ہیں۔
ali akbar Feb 09, 2016 08:54pm
Dear Akhtar Baloch You have written in a nice manner. No doubt Mr. Udhewdas had set a good model but unfortunately such trend utmost stopped after separation/migration of Hindus from Sindh. There is a need to probe into and educate our new generation about such heroes and work/contribution they had. Please continue your efforts in surfacing such ignored aspects by "breaking news style" media !
ریاض بلوچ Feb 09, 2016 11:21pm
بہت معلومات ملی آپ کے اس بلاگ سے، ایک نیک نیت انسان کی بے حرمتی کی کہانی جس طرح بیباکی سے آپ نے بیان کی ہے اس سے ہمیں حوصلہ ملا کہ آج بہی ایسے لوگ ہیں جو مذہب اور مسلک سے بالاتر ہو کر انسانیت پر یقین رکھتے ہین۔
Ijlal Hussain Feb 10, 2016 12:38am
Very nice and clear picture is depicted by the author of this Hindu inspirational personality these are the real leaders of 19th century.The story of picture and museum is so amazing that every person should make efforts and workings to save these type of stories and write about them and convey a good message to our public. Every citizen have a very good importance in the society He is a Hindu but he works for the whole society and as a Pakistani and a Muslim I am proud of him and he devote his life for society.Religion is something else but helping humanity should be the first and foremost obligation of every person it may be a Muslim or Hindu,Christian or Buddhist.The writer clearly noticed about our social issues most focusing on religion and it constraints.
ولی محمد Feb 10, 2016 02:59am
نہایت شاندار بلاک ہے۔ پڑھ کر مزا آ گیا۔۔۔ ہمیں اپنے ماضی سے کچھ سیکھنا چاہیے۔۔۔ اور حال کو سنوارنا چاہے۔۔۔
Amna Feb 10, 2016 03:09am
well in such a society where every one is judged by their caste and creed this attitude is very normal.I'm very thankful to you for sharing this information and for saving the memorial
khurram Feb 10, 2016 04:08am
Awesome!
khobaib Feb 10, 2016 05:23am
agar myn ghalat nhi hoon tuo sang mar mar safed pathar ko hi kehtay hyn ?
khobaib Feb 10, 2016 05:28am
mazmoon bohot achha hy,meri maaloomat ke mutabiq udhaw das ki man ne kaha tha ke tu nay nam o nmod ke liey haspatal bnaya hy tuo iss pr udhaw das ne apna nam zameen pr likh waya
soomro ghulam ali Feb 10, 2016 11:52am
nice write up, well done, keep it up akhtar sb.
Alamgeer Solangi Feb 10, 2016 01:50pm
Informative Research by Mr. Akhter Baloch because very few know reality about what happend with statue of R.B Udhawdas Tarachand...
fus Feb 12, 2016 05:50am
@yusuf sahab- Agar baat sumjh na aye tou behtur hae kay khamosh raha jaye. Musla Kalma ka nahin zehniat ka hae, jo shayed aap ko bhi sumjh na aye.
حفیظ کنبھر Feb 12, 2016 09:37am
ھاسپیٹل کی دیواروں پر لکھے گئے عطیہدینے والے مخیر لوگوں کے ناموں میں ڈونرز میں فقط ایک ھی مسلم فیملی کا نام لکھا ھوا ھے ـوہ ھارون فیملی کا ـ جس کی طرف سے سات ھزار نہیں بلکہ پانچ سو روپے عطیہ دیا گیا تھا ـ باقی ـ بھٹو ـ آغا ـ درانی ـ سومرو ـ سید ـ سب کے سب لاتعلق رھے تھے اس میگا پروجیکٹ کے حوالے سے ـ اس سے یہ ثابت ھوتا ھے کہ سندہ کے مسلمان جاگیرداروں ـوڈیروں کا کوئی بھی نہ وژن تھا نہ ان سوشل سروسز میں ان کا کوئی کردار تھا ـ
Muhammad Azeem Asif Feb 12, 2016 10:08am
Dear Akhtar Sahib, I am a great admirer of your writings and way of writing. Alas! We don’t want to learn anything from history. I don’t know when we can learn that “at human level we cannot reject anyone”. Sir, keep it up.
sattar rind Feb 12, 2016 03:00pm
just great
Ghiasjunejo Feb 13, 2016 03:46pm
If those,who pulled down the statue of R.B Auduawdas feel that they had done something praiseworthy for Sind, or Islam they are basically wrong. Hindus who had devoted their lives for the betterment of humanity nay Sindhis deserve all regard and respect. Nations indifferent to their history will only remain a story.
husain naqi Feb 23, 2016 01:37pm
ek intihai nek kam kar rahey hain Akhtar baloch. tareekh ko mitanay waley mit jaen gey laikan adhodas ka naam aur kaam donon zinda rahain gey aur Akhtar Baloch ki yeh tehrir bhi zinda rahey gi .digitization ka ek faida yeh bhi hai.... Husain Naqi Lahore 23.2.2016
آصف سہتو Mar 06, 2016 10:37pm
بلوچ صاحب بہت اعلیٰ تحریر ہے لیکن میری اطلاعات کے مطابق کئی سال قبل ادھو داس کی پوتی یا نواسی پاکستان آئی تھی اور انہوں نے اس اسپتال کا دورہ بھی کیا تھا اور اپنے دادا یا نانا کا نام زمین پر دیکھ کر ایک احترامن ایک سائیڈ سے اندر داخل ہوئیں ۔۔اس بات میں کتنی صداقت ہے