اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل نے پنجاب کے تحفظ خواتین ایکٹ اور خیبر پختونخوا کے گھریلو تشدد کے بل کے مسودے کو مغربی معاشرے کی اقدار کی حوصلہ افزائی قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کردیا۔

اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے 2 روزہ اجلاس کے اختتام پر کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور دیگر کئی اراکین نے، ملک کے قوانین اسلام کے مطابق ہونے کی یقین دہانی کرانے میں ناکامی پر جمہوری حکومتوں کی مذمت کی۔

کونسل کا کہنا تھا کہ صرف آمروں نے ملک کے قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے کام کیا، جبکہ جمہوری حکومتوں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) اسلامی اقدار کے خلاف کام کرتی رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : تحفظ نسواں بل آئین کےخلاف قرار

مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا جن میں ایک ملک کے لوگ اسلام کے ماننے والے تھے، اس لیے ملک کے تمام قوانین اور اصول اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی ہونے چاہیئے، لیکن ملکی قوانین کو شریعت کے مطابق بنانے کی تقریباً تمام کوششیں غیر جمہوری دور حکومت میں ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سی آئی آئی 1962 میں تشکیل دی گئی، جس کے بعد حدود آرڈیننس اور توہین مذہب سمیت چھ قوانین کونسل کی سفارشات کے مطابق 1983 میں قائم کیے گئے، جبکہ 1949 کی قرارداد مقاصد کو 1985 میں ملک کے آئین میں شامل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام سنگِ میل غیر جمہوری دور حکومت میں عبور کیے گئے، لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کے نام میں بھی ’مسلم لیگ‘ آتا ہے، ملک کے اسلامی ڈھانچے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں : تحفظِ خواتین بل کو قانونی حیثیت مل گئی

مولانا شیرانی نے تحفظ خواتین بل اور گھریلو تشدد کے بل کو شریعت، ثقافت اور معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ دونوں بلز ’خاندانی اقدار‘ کو تباہ کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ ان سے ماں، بیٹا/بیٹی، شوہر اور بیوی جیسے قابل احترام رشتوں میں کوئی احترام نہیں رہے گا، اور ان سے مغربی اقدار کو فروغ ملے گا۔

مولانا محمد خان شیرانی کے اس موقف کی، سی آئی آئی کی واحد خاتون رکن ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی سمیت تمام مکاتب فکر کے علما کرام نے حمایت کی۔

ان کا کہنا تھا پنجاب حکومت کو اس بل کو واپس لے کر، کونسل کو خواتین کے تحفظ کے حوالے سے سفارشات پیش کرنے کی باقاعدہ درخواست کرنی چاہیے، جبکہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں گھریلو تشدد کے خلاف پہلے سے ہی قوانین موجود ہیں۔

یہ خبر 4 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Javed Mar 04, 2016 03:37pm
شیرانی صاحب نے کل کی پریس کانفرنس میں اس بات کا اقرار کیا کہ انہوں نے تحفظ خواتین بل کو ابھی پڑھا بھی نہیں۔ پڑھے بغیر ہی انہوں نے اسے غیر اسلامی اور دو قومی نظریے کے خلاف قرار دے دیا۔ کیا اسلام میں عورتوں کو مارنا پیٹنا لازمی ہے؟ کیا اگر مرد کو اس کام سے روکا جائے تو اس سے مرد کے حقوق متاثر ہوتے ہیں؟ کیا تشدد کرنے والے، اور جنسی ہراساںکرنے والے مردوں کی پکڑ نہیں ہونی چاہئے ؟ کیا یہ حکومت کی زمے داری نہیں کہ مظلوم کو ظالم کے ظلم سے بچائے اور ظالم کو پکڑے؟ یہ مولوی حکومت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں اور اظہاررائے کی آزادی(جو کہ جمہوریت کی ہی دین ہے) کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو جمہوری حکومت کے خلاف بھی اکسا رہے ہیں۔
Kamal KSA Mar 04, 2016 07:04pm
Our legislators and state should DO MORE to protect women rights. Our women are increasing victim of child labour, gender discrimination, sexual assaults, honor killing, forced marriages and extortion, At the moment, this is the women who is giving courageous side of the Pakistan, in the name of Malala and Sharmeen Chinai.