سانحہ کوئی ہو، ردِ عمل ایک سا ہے

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2016
لاہور بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے موبائل پر کال آ رہی ہے؛ جس میں کالر کا نام ''امی جان'' لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔
لاہور بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کے موبائل پر کال آ رہی ہے؛ جس میں کالر کا نام ''امی جان'' لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔

فون کی گھنٹی بجی، ٹون کی آواز کافی تیز تھی، اور اس پر چمکتا ہوا کالر کا نام ''امی جان'' تھا۔

مگر کسی نے بھی اس خوفزدہ والدہ کا فون نہیں اٹھایا۔

فون کی رنگ بجتی رہی؛ کسی میں کہاں اتنی ہمت تھی کہ فون اٹھائے؟ اس ماں کا بچہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا تھا، وہ بم دھماکے کا شکار کسی میدانِ جنگ میں نہیں ہوا بلکہ لاہور کے ایک پارک میں ایک جھولے پر ہوا، جہاں ہلہ گلہ تھا اور ہر سو مسکراہٹیں پھیلی تھیں۔

اب وہاں چھوٹے چھوٹے عضو اور خون سے داغدار کھلونے ٹوٹے شیشے کے ٹکڑوں کے درمیان بکھرے پڑے تھے۔

پہلے ہماری پولیس، فوج، نیوی اور رینجرز پر حملے کیے گئے، پھر مصروف بازاروں اور نمازیوں سے بھری مساجد کا رخ کر لیا گیا۔

جب انہوں نے اپنے اہداف خاردار تاروں اور سکیورٹی کی تہوں کے پیچھے محفوظ دیکھے، تو ان قاتلوں کی نگاہیں ہمارے بچوں پر پڑیں۔ پہلے اسکول اور اب پارکس۔

پاکستان کے بچے آخر کیوں ان دہشتگردوں کا نشانہ ہیں؟

'آسان اہداف' سے لے کر تمام الزام کسی اور پر لگانے جیسی بے مقصد باتیں ایک طرف، کیا آرمی پبلک اسکول سانحے کے بعد بھی ہم اپنے بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں؟

ٹی وی پر حب الوطنی اور خوشی کے نغمے تیار کیے گئے جس میں یونیفارم میں ملبوس بہادر بچے مارچ کرتے ہوئے دہشتگردوں کو مزید بربریت کا چیلینج دے رہے ہیں؛ نیوز کاسٹرز کا ہلاک بچوں جیسے یونیفارم پہن کر خبریں پڑھنا، ان کو اس طرح سلیوٹ کرنا کہ جیسے وہ جنگجو تھے، نہ کہ اپنی کلاسوں کی طرف دوڑتے اسکول کے بچے۔

پڑھیے:گلشنِ اقبال سے گلشنِ ابدی تک

وہ بچے فوجی نہیں تھے۔ انہیں کسی جنگی میدان میں نہیں بلکہ ان کے کلاس رومز میں قتل کیا گیا تھا۔

امریکی کارٹونسٹ لیزا ڈونیلی نے لاہور میں قتل عام سے منسوب ایک خاکہ بنا کر کتنے ہی پاکستانی دل جیت لیے۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد سماجی میڈیا کے ذریعے ان تک پہنچی تاکہ لاہور کو یاد رکھنے اور پاکستانیوں کے درد کا اظہار کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔

امریکی کارٹونسٹ لیزا ڈونیلی نے اپنے خاکے کے ذریعے لاہور سانحے کی عکس بندی کی ہے۔
امریکی کارٹونسٹ لیزا ڈونیلی نے اپنے خاکے کے ذریعے لاہور سانحے کی عکس بندی کی ہے۔

اس خاکے میں ایک ماں دکھائی گئی ہے جو کہ اپنے ہلاک بچے کی خون میں لت پت اور پاکستانی پرچم میں لپٹی ہوئی لاش پر زار و قطار رو رہی ہے۔ اس پر شکر گزار ہونے کے بجائے اس طاقتور خاکے پر ہمیں تھوڑا ٹھہر کر سوچنا چاہیے: کیا ہم بطور ایک قوم اپنے بچوں سے یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں گریجوئیشن کیپس کے بجائے کفن میں آئیں؟

اپنے غم کی مغرب سے توثیق کی خواہش

ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں کیا کہیں گے جو دیوار پر لکھی خونی تحریر کو پڑھنے سے انکاری ہیں؟ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ تسلیم نہ کرنے کے بعد اب وہ مغرب کو اپنے سانحات نظرانداز کرنے کا الزام دے رہے ہیں۔ اب ہلاک شدگان پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کے تبصرات یوں تھے کہ:

  • ''دیکھتے ہیں کہ مغرب لاہور دھماکے کے بعد متحرک ہوتا ہے یا نہیں، کیونکہ مرنے والوں کی تعداد برسلز واقعے سے زیادہ ہے۔''

  • ''لاہور کی حمایت میں ہیش ٹیگز اور پرچموں میں حیران کن کمی نظر آ رہی ہے۔''

  • ''میں شرطیہ کہتا ہوں کہ لاہور دھماکے کا شکار بننے والا پانچ سالہ حسیب اگر بیلجیئمی ہوتا تو اس کی تصویر نیویارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر نمایاں ہوتی۔''

  • ''بیلجیئمی زندگیاں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔''

ہر سانحے کے بعد اس طرح کا شور مچنا معمول بن چکا ہے — آخر کیوں ہم اپنے غم کی توثیق کے لیے مغرب کی طرف دیکھتے ہیں؟

آئیے مغرب کے ساتھ اس غیرصحتمند محبت کو ایک طرف رکھیں اور گنیں کہ کتنے لوگ پیرس اور برسلز میں دہشتگردی کے خلاف احتجاج اور یک جہتی کے لیے باہر نکلے۔ ان ملکوں کے شہریوں نے دہشتگردوں کے آگے جھکنے سے انکار کردیا؛ اور نہ صرف یہ کہ اپنے بچوں کو آگے نہیں دھیکلا، بلکہ انہوں نے کندھے سے کندھا ملا کر متحد ہو کر مارچ کیا۔

کیا انہوں نے پاکستان کے لوگوں سے پوچھا ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ یکجہتی کے لیے باہر کیوں نہیں نکلے، یا مینارِ پاکستان کو فرانسیسی پرچم کے رنگوں کی روشنی سے آراستہ کیوں نہیں کیا گیا؟

جبکہ پاکستان میں سانحہء لاہور کے اگلے دن کوئی مارچ نہیں کیا گیا، مگر پاکستانی پرچم کے سبز اور سفید رنگوں کی روشنی سے آراستہ آئیفل ٹاور کی تصاویر شیئر کی جاتی رہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو 2007 کے رگبی ورلڈ کپ کے دوران کی تصویر ہے، اور اس نکتے پر لوگ پھر سے بے حس مغرب کو سوگ میں ڈوبے پاکستان کو نظر انداز کرنے جیسے متوقع جذبات کا اظہار کرنے لگے۔

آئیے ہم خود پر ایک غیر متعصبانہ نظر ڈالیں

جب بوکو حرام نائیجیریا میں سینکڑوں مسلمانوں کا قتل عام کر رہے تھے، کیا تب ہم نے سماجی میڈیا میں کسی قسم کے دکھ یا غم و غصے کا اظہار کیا تھا؟

میں نے تو نہیں دیکھا۔

پڑھیے: نائجیریا: بوکو حرام کا بدترین حملہ، دو ہزار ہلاکتوں کا خدشہ

اس پر شور مچانے کے بعد کہ پیرس حملوں کو کیوں بیروت، عراق، پاکستان، میانمار وغیرہ سے زیادہ نمایاں حیثیت دی گئی، کیوں باضمیر مسلمان، جو ہونے کا ہم دعوٰی کرتے ہیں، برادر مسلمان ملک میں ہونے والے حملے پر آہ زاری نہیں کر رہے؟

پیشانی پر بمشکل ایک شکن کے ساتھ ہم مسلسل انسٹا گرام پر لان، برائیڈل سیلز اور کھانوں پر تبصرے پوسٹ کرتے رہے کیونکہ ظاہر ہے ہمیں ان کی بہت ضرورت ہے۔

اور ان لوگوں کو کیا کہیں جو اپنے دوستوں کی پروفائل تصویر پر فرانس کا پرچم دیکھ کر مشتعل ہوگئے اور تیکھے انداز میں پوچھنے لگے کہ انہوں نے اس کے بجائے لبنانی، فلسطینی، عراقی یا پاکستانی پرچم کیوں نہیں لگایا، کہ انہوں نے کیوں یکجہتی کی علامت کے طور پر اپنی پروفائیل تصویر پر کبھی ناجیریائی، شامی، عراقی یا افغانی پرچم نہیں لگایا؟

سوال یہ کھڑا ہوتا ہے: کہ جب مسلمان دوسرے مسلمانوں کا قتل کریں تو کیا ہم پرواہ کرتے ہیں؟ ہم کیوں مغرب کو ہلاک ہونے والے مسلمانوں کو اہمیت نہ دینے کا الزام دیتے ہیں جبکہ ہم خود آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں بہاتے؟

ہمیں اپنے آرامدہ گھروں سے نکلنا ہوگا اور یہودیوں، اسرائیل، امریکا، برطانیہ، فرانس ۔۔۔ یعنی مسلمانوں کو ختم کرنے کے درپے شیطان مغرب کو برا بھلا کہنا چھوڑنا ہوگا کیونکہ یہی کام ہم بخوبی کرتے چلے آرہے ہیں۔ بہت بہت شکریہ۔

پڑھیے: حقیقی فالٹ لائن کہاں؟

کیا پاکستان میں لاہور واقعے کا شکار بننے والوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کوئی مارچ کیا گیا؟

اس وقت صرف حکومت مخالف مظاہرین ہی سڑکوں پر ہیں جن کے مطالبات میں لاہور میں بیسیوں بچوں کے قتل سے متعلق کوئی شق شامل نہیں۔

کیا اس کے بعد بھی مغرب کو برا بھلا کہنا ہمیں زیب دیتا ہے؟

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Lachar Fakeer Mar 31, 2016 10:14pm
آپ نے بلکل درست فرمایا ہے، میں آپ سے متفق ہوں۔ ہم اپنی ناکامی کو بچوں کی شوق شہادت کہ کر دشمن کے بچوں کو پڑہانے کے کتنے ئی گیت گُن گُنا کر عوام کی آنکھوں میں دہول جہونک کر اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے۔ خود ایک دوسرے کو مسجدوں اور عبادتگاہوں میں بی دردی سے قتل کرین اور پہر یہ گلا کریں کہ مغرب کیوں افسردہ نہیں ہے؟ جس دن لاہور میں دہماکا ہوا اُس دن پارلیامینٹ کے سامنے ممتاز قادری کی پہانسی کے خلاف دس ہزار لوگ دہرنا دیکر بیٹہے تہے لیکن آج تک لاہور دہماکے کے شہیدوں کے حق میں کوئی ایک ہزار لوگوں کا مجمہ بہی جمع نہیں ہوا!