حیدرآباد: ادبی منظرنامے میں رنگ بھرتا میلہ

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
سندھ کے نامور ادیب امر جلیل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے۔ — فوٹو وائٹ اسٹار۔
سندھ کے نامور ادیب امر جلیل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے۔ — فوٹو وائٹ اسٹار۔
— فوٹو اختر حفیظ
— فوٹو اختر حفیظ

کسی بھی قوم کے ادیب اس قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اگر روس یا فرانس کی انقلابی تحریکوں کو دیکھا جائے تو اس میں ہمیں ایک چیز بالکل واضح نظر آتی ہے کہ اس زمانے کے ادیب ادب کو ایک محاذ کے طور پر استعمال کرتے آ رہے تھے۔

فرانس کے وکٹر ہیوگو اور روس کے میکسم گورکی ایسے نام ہیں جن کا کردار ادب کے حوالے سے بہت ہی اعلیٰ رہا ہے۔ ادب ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے تلخ سے تلخ بات بھی اس خوبصورت انداز سے کہی جا سکتی ہے کہ ایک جانب تو لکھاری اپنے دل کی بات کہہ جاتا ہے تو دوسری جانب پڑھنے والا اس پیغام کو بھی سمجھ جاتا ہے جو ادیب اس تک پنہچانا چاہتا ہے۔

چند روز قبل حیدرآباد کی تاریخ میں پہلی بار حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔ یہ فیسٹیول 15 اپریل سے 17 اپریل تک حیدرآباد کلب میں جاری رہا، جس میں پورے سندھ سے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔ کراچی سے کشمور تک کے تمام ادب دوست لوگ اس فیسٹیول میں شریک ہوئے، جنہوں نے اس ادبی میلے کو بہت ہی سراہا اور مستقبل میں بھی ایسے فیسٹیول کروانے پر زور دیا۔

حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کا افتتاح سندھ کے نامور ماہر تعلیم، افسانہ نگار، ناول نگار اور کالم نگار جناب امر جلیل نے کیا، جن کے آتے ہی فیسٹیول کی رونقیں دوبالا ہوگئیں۔ وہ لمحہ نہایت جذباتی تھا جب امر جلیل نے سندھی ادب کی نامور ناول و افسانہ نگار محترمہ ماہتاب محبوب کو لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دیا۔ اس وقت نہ صرف ان دونوں کی آنکھیں نم ہوگئیں، بلکہ ہال میں بیٹھے ہوئے حاضرین بھی آبدیدہ ہوگئے۔

فیسٹیول کی ایک خاص اور بہتر بات یہ تھی کہ اس میں خواتین اور نوجوانوں نے بھرپور شرکت کی۔ ان کے تعداد کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ میلہ ان کے لیے ہی لگایا گیا ہے۔ ادب سے وابستہ خواتین کی کافی ہمت افزائی کی گئی۔ جنہوں نے نہ صرف مختلف سیشن میں حصہ لیا بلکہ اپنے اپنے شعبوں میں کیے جانے والے کاموں کے بارے میں بھی اپنے تجربات پیش کیے۔

حال ہی میں سندھ کے معروف ادیب آغا سلیم کا انتقال ہوا ہے۔ حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول میں ان کے لیے خاص تعزیتی ریفرنس رکھا گیا تھا۔ یہ سہرا فیسٹیول کے منتظمین کے سر ہے کہ اس موقعے پر انہوں نے آغا سلیم جیسے عظیم لکھاری کو یاد کیا اور ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔

سندھی میں لکھے جانے والے ادب میں گو کہ بہت سے سینیئر ادیب ہیں، مگر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے قلم کی سیاہی سندھی ادب لکھنے میں صرف کر رہی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو سینیئر ادیب ہیں، وہ اپنے آس پاس کسی بھی نوجوان ادیب کو پھٹکنے نہیں دیتے۔ آج بھی ہر ادبی پروگرام میں وہ کرسیوں سے ایسے چپکے ہیں کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتے۔

اس فیسٹیول میں مثبت بات یہ تھی کہ نوجوان ادیبوں کو بھی اپنی رائے لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملا۔ انہیں اس فیسٹیول میں نظرانداز نہیں کیا گیا، بلکہ وہ اسی اسٹیج پر بیٹھے جہاں سینیئر ادیب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس لیے سندھی ادبی 'اسٹیبلشمنٹ' کے لیے یہ ایک دھچکا ہے۔

سندھ میں کافی ایسے اچھے شاعر، نثر نویس اور افسانہ نگار موجود ہیں جنہیں کبھی بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع نہیں مل سکا، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اس فیسٹیول میں نہ صرف انہیں سنا گیا، بلکہ ان کو یہ بھرپور موقع فراہم کیا گیا کہ وہ جو ادب میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کے بارے میں وہ ان ادیبوں کو بھی آگاہ کر سکیں جو انہیں ہمیشہ نظرانداز کرتے آئے ہیں۔

مگر جہاں فیسٹیول کے چند مثبت پہلو سامنے آئے ہیں وہاں کچھ ایسی چیزیں بھی سامنے آئی ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہیئں تھیں۔

شعراء کی سخن ناشناسی

سندھی ادب میں آج بھی سندھی شاعری کافی جاندار ہے۔ حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول میں ایک بہت بڑا مشاعرہ بھی رکھا گیا تھا، جس میں نوجوان و بزرگ شعراء نے بھرپور شرکت کی اور خوب داد وصول کی۔ یہ ایک نہایت مثبت پہلو تھا کہ مشاعرے کی روایت کو برقرار رکھا گیا، کیونکہ مشاعرے کے بغیر شاعری کی روایت قائم نہیں رہ سکتی۔

مگر فیسٹیول میں جس طرح شاعری کی اضافی نشتیں رکھی گئی تھیں، اس سے یہ تاثر ملا کہ جیسے سندھی ادب میں کسی اور صنف میں لکھا ہی نہیں جا رہا۔

پہلے سیشن میں تھر کے جن تین شعراء کو مدعو کیا گیا تھا، انہیں نہ تو شاعری کے حوالے سے اتنی معلومات تھیں، اور نہ ہی وہ حاضرین کے سوالات کے بہتر جوابات دے سکے۔ ان کا مطالعہ بہت ہی محدود تھا۔ تاثر یہ مل رہا تھا کہ انہوں نے صرف اپنی ہی لکھی ہوئی نظمیں اور غزلیں پڑھی ہیں، لہٰذا ان کی باتیں بوریت کا شکار کر رہی تھیں۔

'لطیف شناسی' کے سیشن میں بھی یہی ہوا۔ شاھ عبداللطیف بھٹائی کے ذکر کے بغیر سندھی ادب ادھورا ہے، لہٰذا فیسٹیول میں ایک سیشن ان کے حوالے سے بھی منعقد کیا گیا، مگر اس میں مدعو لوگوں میں ایسے بھی تھے جنہیں شاہ سائیں کے اشعار تو کافی یاد تھے، مگر انہیں 'لطیف شناس' نہیں کہا جا سکتا۔

لہٰذا جب ان سے سوالات کیے گئے تو وہ حاضرین کو مطمئن کرنے سے قاصر رہے۔ اس سے بہتر یہی تھا کہ ان سے صرف شاعری سنی جاتی اور شاعری پر بات کرنے کے لیے کسی سخن شناس کو بولنے کا موقع فراہم کیا جاتا، کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر اچھا شاعر شاعری پر اچھا بول بھی سکے، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ شاعری پر اچھا بولنے والا شاعری بھی کرسکے۔

مزاحمتی ادب میں غیر متعلقہ مقررین

مزاحمتی ادب کے سیشن میں جن لوگوں کو بولنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک سابق بیوروکریٹ بھی شامل تھے۔ اس سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بیوروکریٹ نے مزاحمتی ادب کے حوالے سے کیا گفتگو کی ہوگی۔

اس سیشن میں کسی بھی مقرر نے یہ تک نہیں بتایا کہ سندھی میں تخلیق ہونے والے مزاحمتی ادب میں کیا کیا شامل ہے۔ ون یونٹ کے خلاف سیاسی تحریک کا تو ذکر ہوا مگر کسی نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ امر جلیل نے کیسے مزاحمتی افسانے لکھے، یا مانک کے افسانے کس مزاحمت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ رسول بخش پلیجو نے اس دور میں کس طرح ادب کو مزاحمتی سانچے میں ڈھالا، اور شاعری کس طرح سندھ میں سیاسی مزاحمتی دور میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔

ان کی باتیں صرف ون یونٹ تک ہی محدود رہیں، جسے قائم ہوئے اور ختم ہوئے 5 دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کیا اس دوران سندھی ادب میں اور کوئی مزاحمتی تخلیق نہیں ہوئی؟ کیا تحریکِ بحالیء جمہوریت (ایم آر ڈی) میں سندھ کا کوئی حصہ نہیں تھا؟ کیا عدلیہ بحالی کی تحریک میں اور جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف سندھ میں کچھ نہیں لکھا گیا؟

ماڈریٹر یا اینکر پرسن؟

فیسٹیول میں جن لوگوں کو ماڈریٹر کے طور پر رکھا گیا تھا، انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سہولت کار نہیں بلکہ کسی ٹی وی پروگرام کے اینکر پرسن ہیں، اس لیے مہمانوں کو کھل کر بات کرنے کا موقع کم کم مل رہا تھا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماڈریٹر صرف تعارف کرواتے اور موضوع کو مقررین پر چھوڑ دیتے، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ ان کے سوال کرنے کا انداز بھی رائے دینے جیسا تھا، اور جو ادیب ایک سیشن میں مہمان تھا، وہی دوسرے میں ماڈریٹر بھی بنا ہوا تھا۔

کسی بھی سیشن کے لیے ماڈریٹر کا انتخاب کرتے وقت منتظمین کو اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ ماڈریٹر کو اس سیشن کے حوالے سے بنیادی معلومات ضرور ہوں اور اس کی اس موضوع میں ذاتی دلچسپی ضرور ہو، ورنہ گفتگو کا رخ موضوع سے ہٹ کر غلط سمت میں چلا جاتا ہے، جس سے نہ صرف سیکھنے کے قیمتی لمحات ضائع ہوتے ہیں، بلکہ بدمزگیاں بھی جنم لیتی ہیں۔

جب امر جلیل ہال میں داخل ہوئے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ان کو حاضرین سے بات چیت کرنی تھی، مگر اس سیشن میں بھی ماڈریٹر کو شامل کر کے ان کی باتوں کے تسلسل کو متاثر کیا گیا۔ ان سے ادب کے بجائے متنازع سیاسی سوالات کیے گئے، جن کا کھرا جواب کئی لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ نتیجتاً امر جلیل جیسی بلند قامت شخصیت کو بلانے اور ان سے گفتگو کرنے کا بنیادی مقصد فوت ہوگیا۔

افسانے اور ناول کا مشترکہ سیشن

افسانہ اور ناول ادب کی دو الگ الگ صنفیں ہیں مگر ان دو صنفوں کو ایک ہی سیشن میں شامل کیا گیا تھا۔

سندھی ادب میں آج بھی بہترین افسانہ لکھا جا رہا ہے اور پچھلے دو برسوں سے سندھی میں ناول نگاری ایک بار پھر سے اپنی جڑیں پکڑنے لگی ہے۔ نئے ناول مارکیٹ میں مسلسل آ رہے ہیں، مگر اس پر ایک بھی الگ سے سیشن نہیں تھا۔ اس سے یہ تاثر بھی مل رہا تھا کہ ادیب صرف شاعر کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ بھی چاہیے تھا کہ افسانہ نگاروں سے چند بہترین افسانے بھی پڑھائے جاتے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

بڑے نام فیسٹیول سے غائب

سندھی ادب کے کئی بڑے نام اس فیسٹیول میں دکھائی نہیں دیے۔ حالانکہ سندھی ادب کے لیے ان کی بیش بہا خدمات ہیں۔ علی بابا، عبدالقادر جونیجو، رحمت اللہ مانیوٹھی، اور دیگر کئی نام ایسے ہیں جن کی کمی فیسٹیول میں شدت سے محسوس کی گئی، کیونکہ اگر انہیں مدعو کیا جاتا تو کافی بہتر چیزیں سننے کو ملتیں۔ اب اس میں فیسٹیول انتظامیہ کی کوتاہی تھی یا ان کی مصروفیات، اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔

بہرحال تمام خامیوں کے باوجود حیدرآباد میں ادبی فیسٹیول کی ابتدا ایک اچھا اقدام ہے۔ امید ہے کہ فیسٹیول انتظامیہ اس مثبت روایت کو جاری رکھتے ہوئے اگلے سال یہ میلہ دوبارہ منعقد کرے گی۔ مگر ایسا کرتے ہوئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ فیسٹیول کی منصوبہ بندی نہایت عرق ریزی کے ساتھ کی جائے، تاکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کے معیار میں زوال آنے کے بجائے کمال آتا جائے۔

حیدرآباد کا ادبی منظرنامہ ایک عرصہ ہوا پھیکا پڑ چکا ہے، اس میں رنگ بھرنے کے لیے اس طرح کی سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہے، جس سے ہم نوجوان نسل کو اپنے ادب سے روشناس کروا سکتے ہیں، کیونکہ یہ ادب ہی ہے جو ایک صحتمند اور باشعور معاشرے کی تخلیق میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (16) بند ہیں

Rashid Apr 22, 2016 04:22pm
اس میلے کے منتظمین میں کون کون شامل ہے؟
Salar Lateef Apr 22, 2016 05:15pm
محترم اختر حفیظ کی جانب سے حیدرآباد ادبی میلے کی جس طرح سے اپنی تحریر کے ذریعے عکاسی کی گئی ہے، وہ بہت ہی لاجواب ہے اور اس کے علاوہ میلے میں موجود تمام لوازمات کو بہت باریک بینی سے دیکھنے کے بعد اس پر لکھا گیا ھے لیکن امر جلیل کے کردار، کام اور ان کی ادبعی خدمات کی روشنی میں ان کو محظ سندھ تک محدود کرنا میں سمجہتا ہوں شاید ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ حسبِ معمول محترم اختر حفیظ کی تحریر پڑھ کر بہت مزا آیا۔
غلام شبیر لغاری Apr 22, 2016 05:33pm
حیدرآباد: ادبی منظرنامے میں رنگ بھرتا میلہ،، نامور لکھاری اختر حفیظ نے پہلی مرتبہ ہونے والے حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کا منظرنامہ پیش کیا ھۓ، اچھے الفاظوں میں تحریر پیش کی ھۓ، اختر حفیظ کی بات اچھی لگی کے اگلے سال فیسٹیول کی منصوبہ بندی نہایت عرق ریزی کے ساتھ کی جائے، تاکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کے معیار میں زوال آنے کے بجائے کمال آتا جائے۔۔۔۔۔اس بات پر غور کیا جانا چاھیۓ۔
A Sidhi Apr 22, 2016 05:59pm
ایک متوازن تحریر، آپ نے نہ صرف ادبی پروگرام کی اچھایوں پر لکھا ہے بلکہ ان غلطیوں کی بھی نشاندہی کر دی ہے، جو آئندہ نہیں ہونی چاہیے۔
Samo Shamshad Apr 22, 2016 07:08pm
nice article about Hyd Lit Festivel: Positive and negative points highlighted.
یمین الاسلام زبیری Apr 23, 2016 04:59am
حفیظ صاحب نے بہت سی باتوں کی طرف نشاندہی کی ہے۔ اگر اس میلے کے منتظمین ان کو پڑھیں تو کچھ تو ضرور کہیں کم از کم اتنا ہی کہیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ منتظمین نے اپنا کام بہت بڑھا لیا اگر وہ اسے اتنے بڑے پیمانے پر کرنے کی بچائے چھوٹا مگر اچھا کرتے تو بہتر ہوتا۔
Hameed Abro Apr 23, 2016 02:53pm
زبردست، اختر
Nasrullah Jarwar Apr 23, 2016 04:20pm
سندھ کے نامور لکھاری محترم اختر حفیظ نے حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کا آنکھون دے کھا احوال بڑے احسن طریقی سے بیان کیا ہے ایسا لگ رہا ہے ک پڑہنے والا وہ لٹریچر فیسٹیول دیکھ رہا ہے۔ اختر حفیظ نے اپنے قلم سے جو لکھا ہے بہت اچھا لکھا ہےاور اس کے ساتھ مسقبل میں بھی ایسے لٹریچر فیسٹیول منانے کے لیے مثبت راے بھی دی ہے۔۔۔۔ یے ایک best articl ہے۔۔۔۔
Tanveer Ahmed Apr 24, 2016 12:49pm
حیدرآباد ادبی فیسٹیول کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھ کر اس کو کئی خامیوں کے باوجود ایک احسن قدم قرار دیا گیااگرچہ اس میں کئی متنازع معاملات تھے۔ لیکن اختر حفیظ کی جانبدارانہ غیر حقیقی رپورٹ کے بعد چند وضاحتیں اور سوالات ضروری ہوگئے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ تھر کے شعراءکے بارے میں توہین آمیز ریمارکس دیئے گئے ہیں کہ انہیں شاعری کے بارے میں کچھ پتہ نہیں وغیرہ ۔ایک سپماندہ علاقے کے لوگ جو کہ معاشی، سیاسی اور ثقافتی طور پر ملک کے باقی حصے سے کٹے ہوئے ہیں ان کو پہلی بار اگر عزت دی گئی تو ناراض نہیں ہونا چاہئے۔ حلیم باغی، جمن دربدر ، سائینداد ساند، نصیر کنبھار جیسے شعراءاور ادیب جن کی شاعری اور عملی زندگی میں کوئی تضاد نہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ ڈان ڈاٹ کام نے یہ رپورٹ اس طرح سے شایع بھی کردی۔ حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ یہ میلہ ایک خاص گروہ نے ترتیب دیا تھا، اس مقصد کے لئے کسی سے کوئی مشاورت اور تبادلہ خیال تک نہیں کیا گیا۔ اس پورے معاملے کو ”صیغہ راز “ رکھا گیا۔ میلے میں اپنی پسند ناپسند کے لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ اور اس کے ذریعے بعد ادبی شخصیتوں کو بڑا اور بعض کو چھوٹا دکگانا مقصود تھا۔
Tanveer Ahmed Apr 24, 2016 12:52pm
حالات اور واقعات بتاتے ہیں کہ یہ میلہ ایک خاص گروہ نے ترتیب دیا تھا، اس مقصد کے لئے کسی سے کوئی مشاورت اور تبادلہ خیال تک نہیں کیا گیا۔ اس پورے معاملے کو ”صیغہ راز “ رکھا گیا۔ میلے میں اپنی پسند ناپسند کے لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ اور اس کے ذریعے بعد ادبی شخصیتوں کو بڑا اور بعض کو چھوٹا دکگانا مقصود تھا۔سحر امداد امداد حسینی، تاج بلوچ ، عبدالقادر جونیجو، نورالہدیٰ شاہ، بدر ابڑو، تنویر جونیجو، قاضی خادم وغیرہ نے کیا قصور کیا؟ فتتاح صرف امر جلیل نے نہیں کیا تھا بلکہ کمشنر حیدرآباد نے کیا تھا۔ یہ مکمل طور پر سرکاری چھتری کے نیچے تھا۔ ایم پی اے سردار شاہ کی مسلسل موجودگی اس بات کی غمازی کرتی ہے۔ سردار شاہ صاحب شاعر ہیں لیکن انہوں نے اس سے پہلے کبھی بھی کسی ادبی پروگرام میںانتی تفصیلی شرکت نہیں کی۔ کیا اس کا مقصد یہ لیا جائے کہ چار سال پہلے جس طرح سے سندھی ادیب اور دانشور وغیرہ پیپلزپارٹی کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے، اس بات کو روکنے کے لئے یہ پیشگی حفاظتی اقدام کے طور پر کای گیا ہے؟
Sabeen Khatoon Apr 24, 2016 03:23pm
تعجب کی بات ہے کہ میلے کا آدھا افتتاح موجود کمشنر سے کرایا، لیکن ایک سابق بیوروکریٹ گل محمد عمرانی کی پینل میں شرکت پر اعتراض کیا گیا ہے۔ یہ” سابق بیوروکریٹ“ انگریزی میں ایم اے ہیں۔ اور ادب لے دلدادہ۔ نصف درجن کتابوں کے مصنف اور پچاس سے زائد مضامین و مقالے لکھنے والے ہیں وہ ایک عرصے تک سیکریٹری ثقافت و سیاحت سندھ بھی رہ چکے ہیں۔اس کے علاوہ ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر این اے بلوچ انسٹیٹیوٹ بھی رہے ہیں۔ تھر کے بارے میں لکھاری کا تبصرہ تکلیف دہ ہے۔
akhtar hafeez Apr 25, 2016 05:00pm
Pehli bat ye k mene jis mazhamti session ka zikr Kya hy uss me gul.umrani sahb nhe thy. Unhe me janta Hun k woh na,sirf adab dost blk kae kitaben bhi likh chuky hn Dusre baat sindh me sabik.beaurocrate sirf umrani sb.nhe hn. Thar se any waly 3 shuar'a k session audience us wakt bore hoty Rahy jb tak unhon ne shairi nhe sunai. Kyun Kwoh shairi achy krty hn Mgr mozo pr bat wazndar nhe kr sakty.uss session me jumn darbdr Shamil nhe thy. Or naseer kumbher afsana nigar hn.shair nhe woh kisi Bhi session me nhe thy. Blog me sirf thar ka zikr nhe majmui zikr kya gya hy Kyun k adab ki bat hy thar k.muashi or siyasi masail ka tazkra nhe hy.
بلال Apr 25, 2016 05:22pm
تھر سے تعلق رکھنے والے شعراء کرام کے بارے میں اختر حفیظ کا تبصرہ تکلیف دہ نہیں، بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔ میں نہیں کہہ رہا، بلکہ شاعری کی تکنیک پر ایک معروف کتاب 'شعریات' کے مصنف جناب نصیر ترابی صاحب، جو خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ضروری نہیں ہر سخن ور سخن شناس بھی ہو۔ کئی لوگ ہیں جو خود شاعری نہیں کر سکتے، لیکن شاعری کی فہم رکھتے ہیں اور اس پر تنقید تک کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ضروری نہیں کہ ہر شاعر اچھا تنقید نگار بھی ہو، کیونکہ تنقید کے لیے سخن شناس ہونا ضروری ہے۔ نصیر ترابی صاحب کے نزدیک خدائے غزل میر تقی میر کے بارے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اس حوالے سے بہتر رہے گا۔ یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے، بلکہ صرف ایک حقیقت ہے۔
ashothama Apr 25, 2016 06:16pm
This festival was not organized by any of representative or credible segment of Sindhi literary circle. Likewise this event was not larger scaled owned by available Sindhi literature societies or institutions; like Sindhi Adabi Sangat or Sindhi Language authority/Sindhi Adabi Board/ Sindh University etc. This is one of series with an specific dimension, like; My Karachi / Apna Hyderabad / Indus valley extra.
ubaid banglani Apr 25, 2016 06:38pm
Akhter hafeez ek zemedar writer hn.unhon ne jis,tarah adabi mely p likha hy woh mely ki intzamya ne bhi saraha hy. Un k blogs ki mukbulyt social media p dekhi ja sakti hy. Ye koi tarefi tehreer nhe bal k islahi hy. Sarkari mulazim ne iftatah kya mgr unhon ne zikr amer jalil kya hy. Mgr hum log sirf taref sunna, chahty hn. Thar bhi sindh ka,hisa hy wahan k shair aj bhi shairi p dastars rakhty hn mgr mozo p un ka mutala,km hy jo session me bhi mehsos hua.
ashothama Apr 25, 2016 06:47pm
thank you dawn, for this space ' in the name of opinion'.