'بنگلہ دیش،پاکستان کےزخموں پرنمک چھڑک رہاہے'
اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کی شدید مذمت کی ہے۔
سینیٹ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ 1971 میں پیش آنے والے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات پر لوگوں کو پھانسیاں دے کر بنگلہ دیشی حکومت پاکستان کے 4 دہائیوں پرانے زخموں پر نمک چھڑک رہی ہے۔
تاہم انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ سیاسی مخالفین کی پھانسیوں پر عالمی برادری کا شدید ردعمل بنگلہ دیش کو اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینے پر مجبور کردے گا۔
مزید پڑھیں:بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے مطیع الرحمٰن نظامی کو پھانسی
نظامی صاحب کی پھانسی کو مذمت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش حکومت ناقص مقدمات کے ذریعے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ 12 اسلامی رہنماؤں کو 1971 میں مبینہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت سزائیں دی جاچکی ہیں۔
مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو)، یورپی یونین، یورپین پارلیمنٹ اور امریکا سمیت پوری دنیا نے ان پھانسیوں کی مذمت کی ہے اور ان مقدمات کی سماعت کو شفاف اورغیر جانبدار بنانے پر زور دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ساتھ سلوک غیر انسانی: پاکستان
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دائرہ بہت اہم ہے کیونکہ عدالتی عمل میں خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، 'بنگلہ دیش نے اپنے آئین میں ترامیم کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ہٹانے کا اختیار ملک کی سپریم جوڈیشل کونسل کے بجائے پارلیمنٹ کو دے دیا ہے اور اب ججوں کو ان کی نااہلی کی بناء پر ہٹایا جاسکتا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں اختیارات کی تقسیم کے اصول متاثر ہونے کی وجہ سے ہی اس طرح کے فیصلے کیے جارہے ہیں، سرتاج عزیزنے کہا، 'ہم اس معاملے کو ہیومن رائٹس کونسل میں بھی اٹھائیں گے کیونکہ یہ بنگلہ دیش کے پاکستان سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جس میں اس کا کہنا تھا کہ وہ جنگی قیدیوں کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا'۔
یہ بھی پڑھیں:مطیع الرحمٰن کی پھانسی، بنگلہ دیش میں جھڑپیں
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام باتوں کے باوجود بھی پاکستان ، بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کا کہنا تھا کہ 1971 کے دوران پاکستان سے وفادار رہنے والے لوگوں کو منصفانہ سماعت کا موقع دیئے بغیرہی سزا دی جارہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے چوہدری تنویر کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کو مطیع الرحمٰن نظامی اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں کی پھانسیوں کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایم حمزہ کا کہنا تھا کہ اگر وہ 1970 میں بنگلہ دیش میں ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے جو جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کیا۔
مزید پڑھیں:مطیع الرحمٰن کی پھانسی پر ترک سفیر کی بنگلہ دیش سے واپسی
سابق وفاقی وزیر اور سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنگالیوں کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی تھی۔
فوجی ترجمان کا نام لیے بغیر انھوں نے کہا کہ کثرت سے ٹوئیٹس کرنے والے شخص کو بھی مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کے حوالے سے ٹوئیٹ کرنی چاہیے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 1971 کی جنگ کے دوران فوج کے پاس اختیارات تھے اور ان اسلامی رہنماؤں نے جنھیں بنگلہ دیش میں پھانسیاں دی گئیں، جنگ کے دوران فوج کے ساتھ مل کر لڑائی کی۔ انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس واقعے کی مذمت کے لیے ان (فوجی ترجمان) کی جانب سے کوئی ٹوئیٹ نہیں کی گئی۔
مشاہد اللہ نے پاکستان کی تقسیم کو بنگالیوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کی ایک طویل تاریخ کا نتیجہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:مطیع الرحمٰن کی پھانسی: پاکستان کا شدید احتجاج
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی اکثریت آبادی پاکستان کے ساتھ تھی، لیکن بنگلہ دیشی حکومت کے ان اقدامات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بنگالی عوام بھی پاکستان کے خلاف ہیں۔
قائد ایوان راجا ظفرالحق کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں متعدد عدالتی قتل ہورہے ہیں، 'ہندوستان نے بنگلہ دیش سے ان تمام عناصرکو ختم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے، جو پاکستان کے حق میں ہیں'۔
انھوں نے تجویز دی کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔
سینیٹ کا اگلا اجلاس پیر 16 مئی کو شام 4 بجے ہوگا۔
یہ خبر 14 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔












لائیو ٹی وی