اسلام آباد: وفاقی حکومت اور حزب اختلاف میں پاناما لیکس کے ٹی او آرز کے حوالے سے 12 رکنی کمیٹی پر اتفاق ہوگیا ہے۔

پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بتایا کہ کمیٹی میں 6 اراکین حکومت جبکہ 6 اپوزیشن کے ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ آج قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے اپنے چیمبر میں اجلاس طلب کیا پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ نواز، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جماعت اسلامی (جے آئی) کے نمائندے شامل تھے۔

پرویز رشید نے بتایا کہ کل ایوان میں تحریک کے ذریعے کمیٹی کی منظوری لی جائے گی جبکہ 12 ارکان کے انتخاب کے بعد کمیٹی کا طریقہ کار بھی طے ہوجائے گا جس کے بعد یہ اپنا کام شروع کردے گی۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ کل ایوان میں تحریک کے ذریعے کمیٹی کی منظوری لی جائے گی جبکہ 12 ارکان کے انتخاب کے بعد کمیٹی کا طریقہ کار بھی طے ہوجائے گا۔

اپوزیشن ناموں کا اعلان

میڈیا سے گفتگو میں خورشید شاہ اور اعتزاز احسن نے بتایا کہ کمیٹی میں اعتزاز احسن، شاہ محمود قریشی، آفتاب شیر پاؤ، صاحبزادہ طارق اللہ، الیاس بلور اور طارق بشیر چیمہ شامل ہیں۔

متحدہ قومی موونٹ کے کسی رکن کو کمیٹی میں شامل نہ کرنے کے حوالے سے سوال پر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اپوزیشن کے اجلاسوں میں مناسب انداز میں شرکت نہیں کی اور خود کو معاملے سے الگ رکھا اس لیے ایم کیو ایم کو کمیٹی کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ایم کیو ایم خود یہ ثابت نہیں کردیتی کہ وہ اپوزیشن کا حصہ ہے، تب تک اپوزیشن کمیٹی کے 6 ارکان میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں: 'میرے اثاثوں کی تحقیقات کرنا حکومت کا کام ہے'

یاد رہے کہ رواں ہفتے پیر کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس ٹی او آر بنانے کے لیے مشترکہ کمیٹی بنانے کی تجویز دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا دامن صاف ہے، ہمیں کسی استثنیٰ کی ضرورت نہیں، ہم ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیز کے انکشاف کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔

مشترکہ کمیٹی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ کمیٹی کے 12 اراکین ہوں گے تاہم اس کا کوئی سربراہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ کمیٹی دو ہفتے میں اپنا کام مکمل کرے گی اور کوشش ہوگی کہ متفقہ طور پر ٹی او آرز بنائے جائیں۔

مزید پڑھیں:'وزیراعظم کے خطاب سے معاملہ مزید پیچیدہ'

اس سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں وزیراعظم کے لیے ایک سوالنامہ تیار کیا گیا تھا جس میں ان سے لندن میں موجود جائیدادوں، آف شور کمپنیز اور ٹیکس کی ادائیگی کے حوالے سے 7 سوالات کا جواب مانگا گیا تھا، تاہم وزیراعظم کے قومی اسمبلی میں حالیہ خطاب کے بعد اپوزیشن نے نواز شریف سے مزید 70 سوالات کر ڈالے۔

پاناما لیکس

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیاں ہونے کے معاملے کا انکشاف ہوا تھا، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے اور ان کمپنیوں میں منتقل ہونے والی رقم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما پیپرز کی دوسری قسط: 259 پاکستانیوں کے نام شامل

اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: نیب سے تحقیقات کا مطالبہ

دستاویزات کے مطابق، وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ سکینڈل میں ملوث تھی۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ ان میں سے عثمان سیف اللہ پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم کا، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے پی ایم ایل-ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، نام دستاویزات میں شامل ہے۔

لیکس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔

تاہم ،میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں