پہلے شوق اور پھر رزق کی خاطر ابلاغ کے تقریباً تمام ذرائع ہی سے میرا بچپن سے واسطہ رہا ہے۔ بلاگ مگر ایک نئے دور کی شے ہے۔

یہ مجھے کچھ اس طرح کی صنف لگتی ہے جیسے کسی زمانے میں انگریزی کا essay اور بعد ازاں ہمارے ہاں 1970 کی دہائی میں ڈاکٹر وزیر آغا کا مشہور انشائیہ ہوا کرتا تھا۔

خیر بلاگ جو بھی بلا ہو، اسے میری دانست میں 'لکھا' جاتا ہے۔ شاید 'لکھنا' جدید زمانے میں مناسب لفظ نہیں ہے۔ آج کل لکھنا نہیں 'ٹائپ کرنا' کہا جاتا ہے۔ ٹائپ بھی شاید اب ایک متروک لفظ ہے۔ بلاگ لکھتے ہوئے آپ حروف کو اپنے اسمارٹ فون یا tablet پر موجود کی بورڈ کے ذریعے punch کرتے ہیں۔

مشکل میری یہ ہے کہ اپنے صحافتی کریئر کا بیشتر حصہ میں نے انگریزی اخبارات کے لیے رپورٹنگ کرنے میں صرف کیا۔ اس رپورٹنگ کے لیے میں نے نوٹس لینے کے لیے شارٹ ہینڈ سیکھنے کی کوشش کی۔ کافی 'کلرکانہ' شے نظر آئی تو اسے چھوڑ کر ٹائپنگ پر توجہ دی۔ ٹائپنگ کی اسپیڈ بڑھانے کے لیے آپ کو The quick brown fox jumps over the lazy dog کو بار بار لکھنا پڑتا ہے۔

پتہ نہیں کیوں مجھے یہ لائن بہت پسند آتی۔ مقصد اس کا درحقیقت آپ کی تمام انگلیوں کو مختلف حروف کی پہچان کروانا ہوتا ہے لیکن مجھے lazy dog اور quick fox کا مقابلہ اچھا لگتا۔

شارٹ ہینڈ کے ضمن میں lazy ثابت ہوا تو ٹائپ سیکھنے میں quick کام کر رہا ہوتا۔ ساتھی کہتے کہ کم بخت ٹائپ رائٹر سے دھواں نکال کر چھوڑے گا۔

اردو میں لیکن اب بھی ہاتھ سے لکھتا ہوں۔ اس کا ٹائپ تک سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ تختی کے ذریعے سیکھی ہوئی لکھائی بہت اچھی لگتی ہے۔ بچپن کی چند حسین یادوں کی طرح میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ہمارے ویب ایڈیشن کے ذہن میں کہاں سے یہ خیال آ گیا کہ مجھے ان کے لیے ایک audio blog دینا چاہیے۔ بلاگ کے لیے لکھنے کی بجائے میں نے دینا اس لیے استعمال کیا ہے کہ بات audio کے ذریعے ہونا ہے۔

اگرچہ میں نے جس صورت اپنے بلاگ کا تذکرہ کیا اس سے مرغی کے انڈہ دینے کا خیال بھی ذہن میں آسکتا ہے اور بات اگر مرغی کے انڈے تک آ ہی پہنچی ہے تو مجھے اعتراف کرنے دیں کہ ان دنوں میں خود کو کڑک مرغی محسوس کر رہا ہوں۔ تخلیقی حوالے سے بانجھ ہوئی اس مرغی سے مگر عالیہ بی بی بلاگ مانگ رہی ہیں۔

ان کا اصرار ہے کہ جدید نسل اردو پڑھ نہ پائے تب بھی اسے سننا ضرور پسند کرتی ہے، اور میں اگر آڈیو بلاگ پیدا کردوں تو شاید انہیں پسند آئے۔ اگرچہ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں بلاگ کے ذریعے کچھ بھی کہہ سکتا ہوں مگر زیادہ بہتر یہی ہوگا کہ میں اس کے ذریعے ڈان نیوز کے لیے پیر سے جمعرات تک روزانہ ہونے والے ''بول بول پاکستان'' کے حوالے سے پیش آنے والے کچھ واقعات کا تذکرہ کرتا رہوں۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ ہفتے میں چار دن دو مرتبہ بول بول کے ساتھ شروع ہونے والے پروگرام کے بارے میں مزید کیا بولنا چاہیے۔ بولتے ہوئے میں ویسے بھی شرماتا ہوں۔ میرا مطلب ہے اردو بولتے ہوئے۔ اگرچہ اس زبان میں کئی برسوں سے کالم بھی لکھ رہا ہوں۔

بولی اور لکھی ہوئی زبان میں مگر فرق ہوتا ہے۔ مجھے اردو بولنے سے اس لیے بھی خوف آتا ہے کہ میرا تعلق لاہور کے پرانے بارہ دروازوں والے اندرون شہر سے ہے۔ شین اور قاف کو ایسے ماحول سے اٹھ کر صاف رکھنا ممکن نہیں۔ ر کو ڑ سے بھی گڈ مڈ کیا جاسکتا ہے۔

امین حفیظ اپنی اینکر کو بتا رہا تھا کہ لاہور میں ایک کھمبے میں بجلی آنے کی وجہ سے اس کے ساتھ بندھا گھوڑا مر گیا۔ بے چاری اینکر بڑی ہمدردی سے پوچھتی رہی کہ مرنے والے گورے کا تعلق کس ملک سے تھا۔ امین حفیظ پکار اٹھا، "وہ کسی انسان کی نہیں جانور کی بات کر رہا ہے اور وہ جانور ہے، انگریزی والا ہورس۔"

میں نہیں چاہتا کہ میں عالیہ چغتائی کے مسلط کیے گئے بلاگ میں آپ کو کسی جانور کے مرنے کی کہانی بیان کر رہا ہوں اور آپ اس کی شہریت جاننے کو بے چین ہو جائیں۔

میں تو ویسے ہی ایک کم علم آدمی ہوں۔ ہمارے ایک شاعر مشرق بھی ہوا کرتے تھے۔ تعلق ان کا سیالکوٹ سے تھا۔ عربی اور فارسی انہوں نے مولوی میر حسن جسے شمس العلماء سے سیکھی تھی۔ انگریزی اسکاچ مشن اسکول سے اور بعد ازاں جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھا۔

ان کی شاعری ذرا مشہور ہوئی تو ایک صاحب بہت چاؤ سے انہیں اتر پردیش سے ملنے آئے۔ اپنے گھر لوٹے تو دوستوں نے کرید کرید کر اقبال سے ملاقات کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہا، موصوف مگر موضوع پر ہی نہ آتے۔

بالآخر ایک دن بہت قریبی دوستوں نے مجبور کیا تو محض اتنا کہہ کر خاموش ہو رہے کہ صاحب اس ملاقات کے بارے میں کیا کہوں، وہ ہر بات پر ہاں جی ہاں جی کرتے رہے اور ہم جی ہاں جی ہاں کہہ کر ان کی زبان درست کرتے رہے۔

مجھے اس بلاگ کے ذریعے اپنی زبان درست کرنے کا موقع مل سکتا تھا۔ عمر مگر 60 سال سے ٹپ گئی ہے اور سنا ہے کہ بوڑھا گھوڑا، جی ہاں انگریزی میں جسے horse کہا جاتا ہے، نئے کرتب نہیں سیکھ سکھتا۔

ویسے بھی غالب نے مصوری مہ رخوں سے ملاقات کی خاطر سیکھنا چاہی تھی۔ مجھے زبان سیکھنے کا شوق اس لیے رہا کہ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے گفتگو کرنا ہوتے ہیں اور اب گفت گو کی طرف طبیعت مائل ہی نہیں ہوتی۔

گونگے پن میں بڑی عافیت ہے، اسی لیے تو ابھی تک یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ جس طرح مسٹر منصور کی ہلاکت پر امریکی صدر بہت نازاں ہیں، وہ امیرِ طالبان ملا منصور تھا، یا ولی محمد اور اس کی لاش کہاں پڑی ہے۔ مولا علی کا فرمان ہے کہ بولو تاکہ پہنچانے جاؤ۔ میں بول کر اپنی شناخت پریڈ نہیں کروانا چاہتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Muhammad Usman Khan May 28, 2016 07:20pm
Nusrat Sb.Good work. This blog implies that you should write a book . Marz bahrta gaya joon joon dawa ki
راشداحمد May 28, 2016 11:22pm
یہ سلسلہ بہت عمدہ اور کمال ہے۔اسے جاری رکھیں