مٹھی: صوبہ سندھ کے قحط زدہ صحرائی ضلع تھرپارکر میں خواتین میں خود کشی کے رجحان میں تشویشناک اضافہ ہوا اور ڈھائی سال میں 115 خواتین اور مردوں نے خود سے موت کو گلے لگایا۔

مستقل کئی سالوں سے جاری قحط نے تھر کے علاقے میں تباہی مچا رکھی ہے اور جس کے باعث ملک کے صحرائی علاقے میں سال 2014 کے بعد سے خودکشی کا رجحان بڑھا۔

تھرپارکر کے ایک سماجی کارکن اکبر رحیموں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ گذشتہ ڈھائی سال کے دوران غربت سے تنگ آکر 69 خواتین اور 46 مردوں نے خودکشی کی، جن میں سے بیشتر نے کنوئیں میں کود کر موت کو گلے لگایا۔

تھرپارکر کے سماجی مسائل پر کام کرنے والے اکبر رحیموں نے بتایا کہ بیشتر افراد نے کنوئیں میں کود کر خودکشی کی اور رواں سال کے پہلے 5 ماہ میں اس حوالے سے خواتین میں خود کشی کا رجحان بڑھا اور اب تک 17 خواتین نے خود کشی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'رپورٹ ہونے والے واقعات انتہائی معمولی ہیں'، کیونکہ 'سندھ کے دور دراز دیہات میں ایسے واقعات کئی وجوہات کی بناء پر رپورٹ نہیں ہوپاتے'۔

مٹارو ساند گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک کسان شاکرالدین ساند، جس کے بھائی امیر علی ساند نے کچھ ماہ قبل گاؤں کے قریب ایک کنوئیں میں اپنی بیٹی کے ساتھ کود کر خود کشی کرلی تھی، نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ اس کے بھائی امیر نے اپنی اہلیہ کی موت کے بعد خود کشی کی تھی کیونکہ وہ اپنے 4 بچوں کو خوراک مہیا نہیں کرپارہا تھا۔

شاکرالدین ساند اسلام کوٹ میں کام کرکے اس سے حاصل ہونے والی معمولی آمدنی سے اب اپنے اور اپنے بھائی کے خاندان کے لیے خوراک کا انتظام کررہا ہے۔

سندھ رورل پاٹنر آرگنائزیشن (ایس آر پی او) کی چیف زاہدہ تھیتھو کا کہنا تھا کہ حالیہ چند ماہ میں اس علاقے میں خود کشی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ بیشتر خواتین اپنے شوہروں اور سسرالی رشتے داروں کے تشدد سے تنگ آکر بھی خود کشی کرلیتی ہیں۔

زاہدہ تھیتھو کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو مذکورہ واقعات کے محرکات کے حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیے۔

تھرپارکر کے سینئر سپریٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سرفراز نواز شیخ نے ڈان ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 5 ماہ قبل تھر میں پوسٹنگ کے بعد سے ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ شادی شدہ خواتین میں خود کشی کا رجحان بڑھا۔

ان کے بقول حاصل ہونے والی تفصیلات کے مطابق ان کی یہاں پوسٹنگ سے قبل ہر ماہ 5 سے 6 خواتین کی خودکشیوں کے حوالے سے پولیس کو اطلاعات موصول ہوتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ گذشتہ 5 ماہ کے دوران ان کے ضلع کے کسی بھی پولیس اسٹیشن میں ایک بھی خود کشی کا کیس درج نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ غربت، خاندانی دباؤ اور دیگر سماجی مسائل کی وجہ سے خواتین اس انتہائی قدم کو اٹھاتی ہیں۔

سینئر پولیس عہدیدار نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ بیشتر خواتین اور مرد حضرات نے کنوئیں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں