میں نے سب سے پہلی بار برفانی تیندوا ایک فلم میں دیکھا تھا۔ بی بی سی کی پلینٹ ارتھ سریز نے جنگل میں اپنے شکار کے لیے گھات لگائے برفانی تیندوے کی کچھ ناقابل یقین زبردست اور خوبصورت فوٹیجز دکھائی تھیں۔ وہ تیندوا چترال کی کھردری چٹانوں پر مارخور کی تلاش میں پہاڑوں پر چھلانگ لگاتے دکھایا گیا تھا۔

اس سے پہلے کبھی بھی بمشکل دکھائی دینے والے تیندوے کے شکار کو فلم بند نہیں کیا گیا تھا — یہ فلم 10 سال سے بھی پرانی تھی۔

دوسری بار میں نے برفانی تیندوے کو کئی سالوں بعد 2012 کی گرمیوں میں دیکھا تھا، جب میں نتھیا گلی کے لالا زار وائلڈ لائف پارک میں چہل قدمی کر رہی تھی، تب میں نے پرندوں کے پنجرے کے اندر مردہ دلی سے بیٹھے اس جانور کو دیکھا۔

میں اس نایاب جانور کو ایسی بدتر حالت میں دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی۔ اس تیندوے کو بچپن سے ہی اس طرح قید کر کے رکھا گیا تھا۔

برفانی تیندوے کے حوالے سے پاکستان کے ممتاز ترین ماہر ڈاکٹر علی نواز نے مجھے مسلئہ سمجھاتے ہوئے کہا کہ، ''اگر ایک بار جنگلی جانور کا چھوٹا بچہ اس کے فطری ماحول سے اٹھایا لیا جاتا ہے تو اسے پھر سے فطرت کو لوٹایا نہیں جاسکتا۔''

ان کے مطابق، برفانی تیندوے جب اپنی ماؤں سے شکار کرنا سیکھ رہے ہوتے ہیں، تب اس کے ساتھ ساتھ ان کی طاقت اور پٹھوں کی افزائش ہوتی رہتی ہے۔ یہ افزائش صرف جنگل میں ہی ہو پاتی ہے، تاہم جو تیندوا قید میں رہتا ہے، اس کی افزائش مختلف انداز میں ہوتی ہے۔

ڈاکٹر نواز جانوروں کو قید میں رکھنے کے قطعی طور حامی نہیں ہیں، بلکہ وہ جنگل میں ہی تیندووں کو بچانا چاہتے ہیں۔ جب انہیں سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن (ایس ایل ایف) کے ساتھ کام کرنے پر وائٹلی فنڈ فار نیچر ایوارڈ، جسے 'گرین آسکر' بھی کہتے ہیں، سے نوازا گیا تھا، تو اس کے ایک ماہ بعد میری ان سے ملاقات ہوئی۔ یہ ایوارڈ فطرت کے تحفظ کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے پر دیا جاتا ہے، اور ڈاکٹر علی نواز کو بھی یہ 'فطرت کے تحفظ کے لیے پاکستان کے اقدامات' کو تسلیم کرتے ہوئے دیا گیا.

ویسے تو نواز جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن جب انہوں نے جنگلی حیات کی ماحولیات میں پی ایچ ڈی مکمل کی تو انہیں برفانی تیندوے میں گہری دلچسپی پیدا ہوئی۔

انہوں نے ناروے میں چار سالوں تک 30 سالہ اسکینڈی نیویائی براؤن بیئر پروجیکٹ پر ریسرچ کی، جس کے دوران ان کے اندر برفانی تیندوے سمیت دیگر بڑے گوشت خور جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔

آخری 200

برفانی تیندوے تنہائی میں اور چھپ کر رہتے ہیں اس لیے قدرتی ماحول میں بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا سراغ لگانا یا ان کا سروے کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ایک اندازے کے مطابق آج وسطی ایشیا کے پہاڑی علاقوں میں قریب 3 ہزار 5 سو سے 7 ہزار برفانی تیندوے موجود ہیں اور تقریباً 6 سو سے 7 سو تیندوے دنیا کے چڑیا گھروں میں موجود ہیں۔

ان میں سے خیبر پختونخواہ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں پھیلے ہوئے ہندو کش، ہمالیہ، قراقرم اور پامیر کے پہاڑوں میں ایک اندازے کے مطابق صرف 200 برفانی تیندوے موجود ہیں۔

برفانی تیندوے تنہائی میں اور چھپ کر رہتے ہیں اس لیے قدرتی ماحول میں بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں۔ — فوٹو جیمز فنلے.
برفانی تیندوے تنہائی میں اور چھپ کر رہتے ہیں اس لیے قدرتی ماحول میں بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں۔ — فوٹو جیمز فنلے.

عالمی ادارہ برائے تحفظِ فطرت (آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ پہلے سے ہی برفانی تیندوے کو 'سب سے زیادہ خطرے کی شکار نسل' کا درجہ دے چکی ہے، مگر ان کی اتنی اہمیت کے باوجود بھی انہیں مسلسل خطروں کا سامنا کر رہے ہیں۔

شکاری کھال کی غرض سے ان کا شکار کرتے ہیں اور چرواہے اکثر مویشیوں کو ان کے حملے سے بچانے کی غرض سے مار دیتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ مارخور کی کم ہوتی تعداد، جو کہ ان تیندووں کا فطری شکار ہوتا ہے، اور ان کے سکڑتے ہوئے قدرتی ماحول، ان سب چیزوں نے مل کر برفانی تیندووں کی نسل کا مستقبل غیر یقینی بنا دیا ہے۔

برفانی تیندوے کا تحفظ

ڈاکٹر نواز نے پاکستان لوٹتے ہی ملک میں گوشت خور جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔ انٹرنیشنل سنو لیپرڈ ٹرسٹ کے ساتھ ان کی وابستگی کی وجہ سے انہوں نے برفانی تیندوے کے تحفظ کے مشن کے ساتھ 2005 میں سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن قائم کی.

اپنی ریسرچ پر توجہ قائم رکھتے ہوئے نواز نے چترال اور گلگت بلتستان کی دیہی برادریوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے برفانی تیندوے کی نسل کو بڑھانے کے سلسلے میں عام لوگوں، این جی اوز اور حکومت کے ساتھ مل کر ایک انتتظامی منصوبہ تیار کیا۔

ڈاکٹر نواز نے پایا کہ برفانی تیندوے یا بھیڑیے کی وجہ سے ہر خاندان سالانہ اوسطاً تین جانور کھو بیٹھتا ہے۔ جبکہ بیماریوں کی وجہ سے مویشیوں کی اموات کی شرح 5 سے 10 گنا زیادہ تھی۔ انہوں نے دور دراز وادیوں میں مویشیوں کے حفاظتی ٹیکوں اور علاج کی سہولیات متعارف کروا کر مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں رہنے والے لوگوں کے مویشیوں پر برفانی تیندووں کے حملوں کو برداشت کرنا کا حوصلہ پیدا کر سکیں۔

ڈاکٹر نواز 'گرین آسکر' وصول کر رہے ہیں — تصویر جیمز فنلے
ڈاکٹر نواز 'گرین آسکر' وصول کر رہے ہیں — تصویر جیمز فنلے

انہوں نے مویشیوں کا انشورنس پروگرام بھی متعارف کروایا جس میں ہر خاندان کمیونٹی فنڈ کا ایک ممبر بن جاتا ہے اور ایک پریمیم ادا کرتا ہے۔ فنڈ کی نگرانی ایک کمیٹی کے ذریعے کی جاتی ہے جو انہیں فنڈ کے حجم اور نقصان کے حساب سے معاوضہ ادا کرتی ہے۔

چترال میں 12 برادریوں کے ساتھ یہ پراجیکٹ شروع کیا گیا اور اب یہ گلگت بلتستان کی سات وادیوں تک پھیل چکا ہے۔ یہ پروگرام کافی کامیاب ثابت ہوا ہے اور اس کے متعارف ہونے کے ایک سال بعد ہی 50 فی صد جانوروں کو بچایا جا چکا ہے۔

تین سالوں تک سال میں دو بار باقاعدگی کے ساتھ ویکسینیشن کے بعد بیماریوں سے اموات میں 80 فی صد کمی آئی اور کہیں کہیں شرح 100 فی صد بھی رہی۔ نواز کے لیے یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی. کمیونیٹیز کے ساتھ ان کا مجوزہ معادہ کار آمد ثابت ہو رہا تھا- 5 جانوروں کو بیماریوں سے بچانے کے بدلے میں - کمیونیٹیز برفانی تیندوے کی وجہ سے شکار ہونے والے جانور کے نقصان کو برداشت کرنے لیے رضامند دکھائی دیں۔

پراجیکٹ نے مقامی لوگوں کو ان باڑوں کو بہتر کرنے میں بھی مدد فراہم کی جہاں وہ اپنے مویشیوں کو رکھتے تھے۔ روایتی باڑے میں پتھر کی دیواریں ہوتی ہیں جو کہ صرف تین فٹ بلند ہوتی ہیں۔ جب برفانی تیندوے جیسی بڑی بلی باڑے میں داخل ہوتی ہے تو دہشت میں تمام جانوروں پر حملہ کر کے مار دیتی ہے، جبکہ وہی تیندوا اگر جنگل میں ہوتا تو صرف ایک جانور کا ہی شکار کرتا۔

تاہم ڈاکٹر نواز نے گاؤں والوں کو مالی مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ باڑوں کی دیواروں کو مزید اونچا کیا جاسکے۔ تیدوا اندر داخل نہ ہونے پائے، اس لیے باڑے کو جالیوں سے لپیٹ دیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ وائٹلی ایوارڈ کی طرف سے ملنے والی رقم (35 ہزار پاؤنڈز) کو شمالی علاقوں میں جانوروں کے تحفظ کے کام کو دوسری وادیوں میں پھیلانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ پاکستان سے تین جگہوں (پامیر-قراقرم، چترال کے شمال مشرق میں ہندو کش اور وادی نیلم کے ہمالیائی حصہ، استور اور دیوسائی) کو ایک عالمی منصوبے کا حصہ بنایا گیا ہے جسے گلوبل اسنو لیوپرڈ اینڈ ایکوسسٹم پروٹیکشن پروگرام (جی ایس ایل ای پی) کا نام دیا گیا ہے۔

اس منصوبے کا سب سے اہم حصہ تیندووں کے علاقوں کے باضابطہ انتظام کی منصوبہ بندی کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر نواز چترال گول نیشنل پارک جیسے چھوٹے چھوٹے علاقوں پر توجہ دینے کے بجائے دور دور تک پھیلے علاقوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے پیسوں کے استعمال کو لے کر کافی پرجوش ہیں۔ ان کے مطابق ایک برفانی تیندوے کو کم از کم 1600 مربع کلومیٹر زمین کی ضرورت پڑتی ہے، جبکہ چترال گول کا علاقہ صرف 25 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔

نتھیا گلی میں قید برفانی تیندوے کے لیے بھی ایک خوشخبری ہے — حال ہی میں مجھے بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے آخر کار اس بے چارے تیندوے پر نوٹس لیا ہے اور اسے چترال گول نیشنل پارک کے اندر ایک پناہ گاہ میں منتقل کرنے کے منصوبے پر منظوری دینے جا رہی ہے۔

پاکستان میں اب صرف ایک اور برفانی تیندوا قید میں موجود ہے، جو بالائی ہنزہ کی وادی سوست میں ہے (جب وہ بہت چھوٹا تھا تب مقامی افراد کو وہ لاوارث حالت میں ملا تھا)۔ اس کی بھی حالت نہایت بدتر ہے مگر اس کے لیے بھی نلتر میں ایک مناسب پنجرہ بنایا جا رہا ہے اور اس تیندوے کو عید کے بعد وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں