آپ کو کریڈٹ کارڈ کیوں بنوانا چاہیے؟

اپ ڈیٹ 05 مئ 2017
بینک سے کسی ایسی بڑی چیز کے لیے رقم ادھار مانگنے کے لیے آپ کو سب سے پہلے کریڈٹ کارڈ جیسے چھوٹی سطح کے قرضوں کی بر وقت ادائیگیوں کا ایک ٹریک ریکارڈ تیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ — اے پی/فائل
بینک سے کسی ایسی بڑی چیز کے لیے رقم ادھار مانگنے کے لیے آپ کو سب سے پہلے کریڈٹ کارڈ جیسے چھوٹی سطح کے قرضوں کی بر وقت ادائیگیوں کا ایک ٹریک ریکارڈ تیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ — اے پی/فائل

ایک دن پاکستانی بینکار سستی چھوڑ کر اپنا کام کرنا شروع کریں گے، تاکہ تبدیلی آئے اور عام پاکستانیوں کی پیسوں تک رسائی ہو سکے۔ مگر اس موقعے پر آپ کو 'کریڈٹ ہسٹری' یعنی آپ کے لیے گئے قرضوں اور ادائیگی کے ریکارڈ کی بھی ضرورت پڑے گی اور اسے حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ کریڈٹ کارڈ کا ہے۔

پچھلے مضامین میں میں نے ذاتی اثاثوں اور سرمایہ کاری کے بارے میں بتایا تھا، جبکہ اس مضمون میں ہم لائبلیٹیز، یعنی قرضہ جات سے گفتگو شروع کریں گے اور اس سلسلے کی ابتدا کریڈٹ کارڈ کے تعارف سے کرتے ہیں۔

ایک کریڈٹ کارڈ کی سب سے ضروری خاصیت یہ ہے کہ یہ قرضہ حاصل کرنے کی صف تک آپ کی رسائی ممکن بنا دیتا ہے: جب آپ اس کا استعمال کرتے ہیں تو آپ بینک سے قرضہ لے رہے ہوتے ہیں، اور بینک کی جانب سے رقم جاری ہونے کے بعد آپ پر وہ رقم واجب الادا ہوجاتی ہے۔

اگر آپ تھوڑے عرصے میں (عموماً 20 دن یا اس سے کچھ زیادہ) رقم ادا نہیں کرتے، تو اس کے نتیجے میں آپ کو 35 فی صد یا اس سے زیادہ شرح سود سے رقم ادا کرنی پڑے گی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ: ''سیدھی سی بات ہے۔ بینک مجھے ایک کارڈ دیتا ہے جو کہ میرے اے ٹی ایم کارڈ جیسا ہی نظر آتا ہے اور اس کارڈ سے میں ایک مناسب رقم قرضہ لے سکتا ہوں۔

"اگر میں قرضے کی رقم ادا کرنا بھول جاتا ہوں تو مجھے کسی سود خور کو رقم ادا کرنے کی طرح بینک کو اضافی شرحِ سود کے ساتھ رقم ادا کرنی پڑے گی؟ تو آخر میں کیوں ان کا استعمال کروں؟''

اگر آپ ایسا ہی سوچ رہے ہیں تو آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ کریڈٹ کارڈز رکھنا واقعی ایک بکواس خیال ہے۔ عام طور پر کافی سارے لوگ کریڈٹ کارڈ کی وجہ سے اپنی استطاعت سے زیادہ قرضہ لے لیتے ہیں اور نتیجے میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مگر آپ کو ایک کارڈ بہرصورت رکھنا چاہیے، کیونکہ جس طرح میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اس کارڈ کا استعمال اپنی کریڈٹ ہسٹری بنانے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ جیسے ہی پاکستانی بینکار زیادہ منظم انداز میں کام کرنا شروع کریں گے، تو آپ کو اس کریڈٹ ہسٹری کی ضرورت پڑے گی۔

پورے ملک میں کسی بھی مالیاتی ادارے کے ساتھ آپ نے قرضوں کی جو بھی لین دین کی ہوگی، اس کا تمام ریکارڈ کریڈٹ ہسٹری ہے۔ یہ ریکارڈ رکھنے کا کیا جواز ہے؟ کیونکہ یہ رکارڈ بینک الفلاح کے لیے یہ جاننے کے لیے کارآمد ہوگا کہ آپ نے سونیری بینک سے جو قرضہ لیا ہوا تھا وہ ادا کر دیا ہے یا نہیں۔ بینکوں کے پاس آپ کے قرضوں کی عادات کی جتنی زیادہ معلومات ہوں گی، وہ آپ کو اتنا ہی زیادہ اور اتنی ہی آسانی سے قرضہ دینے پر راضی ہوں گے۔

اب ظاہر ہے کہ آپ کو ملائیشیا گھومنے جانے کے لیے پیسے ادھار نہیں لینے چاہیئں، لیکن ایک گھر خریدنے کے لیے پیسے قرض لینا کوئی برا خیال نہیں ہے۔

مگر بینک سے کسی ایسی بڑی چیز کے لیے رقم ادھار مانگنے کے لیے آپ کو سب سے پہلے کریڈٹ کارڈ جیسے چھوٹی سطح کے قرضوں کی بر وقت ادائیگیوں کا ایک ٹریک ریکارڈ تیار کرنے کی ضرورت پڑے گی۔

پاکستان میں صارف کی کریڈٹ ہسٹری دو اداروں میں تیار ہوتی ہے۔ پہلی اور سب سے بڑی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی اپنی جانب سے تیار ہوتی ہے، جسے کریڈٹ انفارمیشن بیورو (سی آئی بی) کہتے ہیں، جبکہ دوسرا ایک نجی سیکٹر ادارہ ہے جسے کریڈٹ چیکس کہتے ہیں اور اسے پاکستان کے سب سے بڑے مالیاتی اداروں میں سے ایک جے ایس گروپ اور دنیا کی سب سے بڑی صارف کریڈٹ ایجنسیوں میں سے ایک ایکسپیریئن کے درمیان مشترکہ اقدام سے قیام پذیر ہوا۔

آپ کی قرضے لینے کی عادات کے بارے میں معلومات ان اداروں تک کس طرح پہنچتی ہیں؟ تمام بینکس اپنی معلومات ان اداروں سے شیئر کرتے ہیں۔ اس شرط پر کہ دیگر تمام بینکوں کا ڈیٹا بھی انہیں دستیاب ہوگا۔

یہ ایک بہت ہی کارآمد نظام ہے۔ مگر اس میں ایک مسئلہ ہے۔ اگر آپ کسی بینک سے کریڈٹ کارڈ جاری کروانا چاہتے ہیں تو آپ کو کم از کم کسی ایک اور بینک سے قرضہ لینے کی ضرورت ہوگی اور جس میں آپ ایک سالہ بروقت ادائیگیوں کی تاریخ بھی رکھتے ہوں۔

تو آپ کس طرح پہلی بار بینک سے کریڈٹ کارڈ جاری کروائیں گے؟ یہ مشکل سوال ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ اس سوال کا میرے پاس کوئی بہترین جواب نہیں ہے۔

ویسے میں کریڈٹ کارڈ کے نظام کے بارے میں کچھ مفروضوں کو ختم کرنے کی شدید ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ ایسی افواہیں گردش کرتی ہیں کہ بینکس کچھ مخصوص پیشوں سے وابستہ افراد کو ادھار نہیں دیتے۔

مجھے یہ افواہ مسلسل سننے کو ملتی ہےلیکن مجھے اس کا کوئی ثبوت حاصل نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس مجھے اس بات کے خلاف قابل غور ثبوت ملے ہیں۔ جن پیشوں کو بطور ''بلیک لسٹڈ'' تصور کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک پیشہ صحافت بھی ہے۔

میں بھی چار سالوں تک ایک صحافی رہا ہوں۔ اور میں نے جب پہلی بار کریڈٹ کارڈ کے لیے درخواست جمع کروائی، تب حبیب بینک نہ صرف مجھے ایک عام کارڈ کے بجائے ایک گولڈ کارڈ جاری کیا، جس میں ایک مناسب کریڈٹ کارڈ سے زیادہ قرضے کی حد مقرر ہوتی ہے، بلکہ مجھ سے میرے اثاثوں کے ثبوت دکھانے کو بھی نہیں کہا گیا، جو کہ میرے لیے بہت اچھی بات ہے کیونکہ میں کوئی اثاثہ رکھتا بھی نہیں تھا۔

تو جناب ''بلیک لسٹڈ'' پیشے سے وابستگی کے باوجود میں کس طرح کارڈ حاصل کر پایا تھا؟ اس طرح کیونکہ جہاں میں کام کرتا تھا وہاں سے میری تنخواہ حبیب بینک کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوجاتی تھی۔ اس طرح حبیب بینک کو ایک مناسب انداز میں یقین تھا کہ وہ باقاعدگی سے میری اکاؤنٹ میں منتقل ہونے والی رقم سے اپنا دیا گیا قرضہ حاصل کر پائیں گے۔

ہاں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی جانب سے مجھے انکار بھی کر دیا گیا تھا، حالانکہ وہاں 2008 سے میرا بینک اکاؤنٹ بھی تھا۔ انہوں اس کی وجہ یہ بتائی کہ جس ادارے میں میں کام کر رہا تھا، اس کا نام ان کمپنیز کی فہرست میں موجود نہیں تھا جن کے ساتھ بینک تجارت کرتا ہے، اور میرے پاس پاکستان میں کریڈٹ ہسٹری بھی نہیں تھی۔

اس تجربے سے مجھے یہ بات جاننے کو ملی کہ جب پہلی بار قرض لینے والوں کی بات آئے تو بینکس کافی احتیاط سے کام لیتے ہیں، لیکن وہ آپ کے ذاتی مالیاتی حالات کی جتنی زیادہ معلومات رکھتے ہوں گے، تو پھر اتنا ہی وہ آپ کے لیے رسک اٹھا پائیں گے۔

حبیب بینک کو معلوم تھا کہ میں مہینے میں کتنے پیسے کما لیتا ہوں، اس بنا پر وہ مجھے ادھار دینے پر رضامند ہوئے۔ دونوں بینکوں میں میرے ساتھ جو متضاد رویہ رکھا گیا اس میں کہیں بھی میرے پیشے کا دخل نہیں تھا۔

اگر آپ تنخواہ دار ملازم ہیں تو آپ کے لیے کریڈٹ کارڈ حاصل کرنا آسان ہوگا۔ اس طرح آپ جس بینک سے تنخواہ حاصل کرتے ہیں وہاں سے آپ کو ابتدا کا موقع مل جاتا ہے۔

جو لوگ فری لانس کام کرتے ہیں یا اپنا کام کرتے ہیں ان کے لیے یہ مرحلہ تھوڑا مشکل ہوسکتا ہے، مگر یہ ان کاروباری حضرات کے لیے کافی آسان ہے جن کے کاروبار رجسٹرڈ ہیں اور آڈٹ شدہ مالیاتی گوشوارے شایع کرتے ہیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جی ہاں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قانون و ضوابط سے کام لیا جائے تو اس کے کافی فوائد ہوسکتے ہیں۔


اس مضمون کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا ہے۔ قارئین کو سرمایہ کاری یا مالیاتی فیصلے لینے سے پہلے خود سے احتیاطاً ریسرچ کر لینی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں