کراچی: وزارت صحت سندھ کا کہنا ہے کہ مون سون کے آغاز سے ہی کراچی میں نگلیریا کا مریض دوران علاج زندگی کی بازی ہار گیا، سندھ اور کراچی میں نگلیریا سے ہلاکت کا سال کا پہلا کیس سامنے آیا ہے۔

حکام کے مطابق نگلیریا کا مریض 30 سالہ زاہد خان بلدیہ ٹاؤن کا رہائشی تھا۔

حکام کا کہنا تھا کہ مریض کو تین روز قبل نازک حالت میں پرائیوٹ ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

مذکورہ مریض کو تیز بخار کے ساتھ نگلیریا بیماری کے تمام علامتیں موجود تھیں، اس مہلک بیماری میں 99.9 کیسز میں مریض کا بچنا مشکل ہوتا ہے۔

سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ ہمیں آج نگلیریا کے مریض کی موت کی رپورٹ ملی ہے، وہ نگلیریا کا شکار ہونے والا سال کا پہلا شخص تھا۔

دوسری جانب مون سون کی آمد سے ہی ڈینگی جیسے مہلک بیماریوں کے پھیلنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے تاہم صوبائی حکومت نے اس کے تدارک کے لیے ابھی تک فنڈز جاری نہیں کیے۔

گزشتہ سال ڈینگی ودیگر مہلک بیماریوں کی روک تھام کے لیے کمیٹی بنائی گئی تھی تاہم اس کمیٹی کو فعال کرنے کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے۔

حکومت کی غفلت اور فنڈز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کمیٹی غیر فعال ہوگئی۔

کمیٹی نے ابتدائی طور پر میڈیا کی جانب سے نشاندہی کرنے پر اپنی مدد آپ کے تحت بیماری کی روک تھام کے لیے کام کیا جس میں میڈیا نے شہر کے بہت سے مضافاتی علاقوں میں پانی میں کلورین شامل نہ کرنے کے بار میں انکشاف کیا تھا۔

نگلیریا سے بچاؤ کے لیے دو طریقے ہیں، پہلا طریقہ جراثیم کو مارنے کے لیے پانی میں کلورین کا استعمال کیا جاتا ہے، دوسرا طریقہ ابلے ہوئے پانی سے جراثیم کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

جراثیم ناک صاف کے دوران نتھنوں کے ذریعے مریض کے اندر داخل ہوجاتا ہے اور مریض کے دماغ میں حملہ کردیتا ہے۔

حال ہی میں حکام اور ماہرین نے مون سون کی آمد سے قبل مہلک بیماری کے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔

گزشتہ سال سڑکوں، دکانوں، گلی و محلے میں گندے پانی کھڑے ہونے کی وجہ سے مہلک بیماریاں پھیل گئی تھیں جس کے نتیجے میں ایک درجن ہلاک ہوگئے تھے۔

اس سے قبل 2014 میں اس مہلک بیماری سے 14 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

اس دوران کمیٹی نے نگلیریا سے بچاؤ کے لیے ماہرین کا اجلاس بلایا اور گزشتہ سال پانی کے سیمپلز جمع کیے جس میں آدھے سے زیادہ شہر میں پانی میں مطلوبہ مقدار سے بھی کم کلورین استعمال نہ کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔

یہاں تک کہ کمیٹی کو90 فیصد کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ( کے ڈبلیو ایس بی) کے پمپ ہاوسز میں کلورین استعمال نہ کرنے کا انکشاف ہوا تھا جس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں انسانوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ کمیٹی کو شہر سے پانی کے سیمپلز جمع کرنے کے لیے کوئی فنڈز اور گاڑیاں فراہم نہیں کئی گئی تھی۔

تاہم انتطامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ نگلیریا کے حوالے سے مہم چلانے اور عوام کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے جارہے ہیں لیکن ان کی مہم عوام کو متاثر نہ کرسکی۔

انتظامیہ نے عوامی مقامات پر پمفلٹ تقسیم کئے لیکن ہسپتالوں کے اندر اور مسجدوں کے باہر ان پمفلٹ کو چسپاں نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے عوام میں نگلیریا سے متعلق آگاہی پیدا نہ ہوسکی۔

اس سے قبل حکام کا کہنا تھا کہ جراثیم گھروں یا مسجدوں میں وضو بنانے کے دوران جراثیم نتھنوں کے ذریعے مریض کے دماغ کے اندر داخل ہوجاتا ہے جہاں ابلا ہوا یا کلورین ملا پانی سپلائی نہ ہوتا ہو۔

اس مہلک بیماری کی وجہ سے اموات میں اضافے نے انتظامیہ کے دعوے کا پول کھول دیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ تین برسوں میں ڈینگی اور نگلیریا سے 39 افراد کی ہلاکت ہوچکی ہے۔

خطرناک امیبا بیکیٹریا گرم پانی میں پرورش پاتا ہے اور یہ جراثیم نتھنوں کے ذریعے انسانی دماغ کے داخل کر دماغ کے ٹشوز کھا جاتا ہے۔

پرائمری امیباک مینگوین سیپھتیلٹس میڈیکل کے اصطلاح میں نگلیریا فولیری خطرناک انفیکشن ہے اور یہ امیبا دریاؤں،جھیلوں، پینے کا پانی کے پائپ لائنوں اورکم کلورین والے پانی کے سوئمنگ پولز میں پائے جاتے ہیں۔

یہ بیماری تندرست انسان پر حملہ کرتی ہے، ہلکے بخار اورسر میں درد کے ساتھ 3 سے 7 دن کے اندر مرض کی تشخیص ہوتی ہے، کچھ کیسز میں گلے اورناک کی سوزش کی وجہ سے بھی مرض کی تشخیص ہوتی ہے۔

یہ خبر 2 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں