ایان کےوارنٹ گرفتاری معطل

شائع July 22, 2016

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کسٹمز انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کے مقدمے میں سپر ماڈل ایان علی کے وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ، ایس ایچ او تھانہ وارث خان اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردیئے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روزراولپنڈی کی مقامی عدالت نے کسٹمز انسپکٹر اعجاز چوہدری کے قتل کیس میں ایان علی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ملزمہ کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا، جس کے بعد ایان نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ سردار لطیف کھوسہ کے توسط سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

مزید پڑھیں:کسٹم انسپکٹر قتل کیس: ایان علی کے وارنٹ گرفتاری

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ایان علی کی درخواست پر سماعت کی، جس میں سیکرٹری داخلہ، ایس ایچ او تھانہ وارث خان اور مجسٹریٹ راولپنڈی کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ کسٹمز انسپکٹر اعجاز چودھری کے قتل میں ایان علی براہ راست نامزد نہیں، قتل کے وقت وہ جیل میں تھیں اور ان کا قتل سے کوئی تعلق نہیں۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ وزارت داخلہ کے افسران مسلسل عدالتی احکامات کی حکم عدولی کر رہے ہیں اور ایان علی کو ملک سے باہر جانے سے روکا جارہا ہے، جبکہ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) اور کسٹم حکام کے خلاف توہین عدالت کی درخواست جمع کرانے کی بناء پر ایان کو حکومتی افسران کی جانب سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

درخواست میں راولپندی کی مقامی عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے ایان علی کے وارنٹ گرفتاری کالعدم قرار دینے کی بھی استدعا کی گئی۔

مذکورہ درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے ایان علی کے وارنٹ گرفتاری معطل کردیئے اور سیکرٹری داخلہ، ایس ایچ او تھانہ وارث خان اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 25 جولائی تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا کا غیر ضروری ہیجان ایان کیس کی طوالت کا سبب؟

یاد رہے کہ مقتول کسٹمز انسپکٹر صائمہ اعجاز کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایان نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ذریعے مبینہ طور پر کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری کا قتل کروایا، جبکہ ایک سال گزرنے کے باوجود پولیس نے متقول کے بھائیوں سمیت ان کا بیان قلمبند نہیں کیا۔

عدالت کے حکم پر پولیس نے بیان قلمبند کیا، جس میں مقتول کی بیوہ نے الزام لگایا کہ ان کے متقول خاوند ایان علی کے خلاف کرنسی اسمگلنگ کیس کے عینی شاہد تھے اور کیس کی تحقیقات بھی وہی کر رہے تھے۔ متقول کسٹم انسپکٹر نے ان کی مرضی کے مطابق تفتیش کا رخ نہ بدلا جس پر مبینہ طور پر انھیں قتل کردیا گیا۔

صائمہ اعجاز نے الزام لگایا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ زرغام بھی ملزمہ کے ساتھ قتل میں ملوث ہیں جبکہ ڈاکٹر ہارون نے مقتول کسٹم انسپکٹر کی پوسٹمارٹم رپورٹ مبینہ طور ایان علی کی مرضی کے مطابق بنائی۔

پولیس کے ماڈل سے رابطہ کرنے پر ایان علی نے اپنا تحریری بیان وارث خان پولیس کو بھجوا دیا تھا، جسے عدالت نے مسترد کردیا اور گذشتہ روز تینوں ملزمان کے وارنٹ جاری کرتے ہوئے انھیں 10 دن کے اندر پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں:ایان کا نام ای سی ایل میں دوبارہ ڈالنے پراٹارنی جنرل طلب

ایان علی کی جانب سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالے جانے سے متعلق توہین عدالت کیس کی گذشتہ ماہ ہونے والی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانا نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ پنجاب ہوم ڈپارٹمنٹ کی درخواست پر ماڈل کا نام دوبارہ ای سی ایل میں ڈالا گیا کیونکہ وہ کسٹمز آفیسر اعجاز محمود کے قتل کیس میں بھی نامزد ہیں۔

ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ایان کا نام

یاد رہے کہ ایان علی نے دسمبر 2015 میں عدالت سے رجوع کرتے ہوئے ای سی ایل سے نام نکالنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ایان کا نام ای سی ایل میں ہونا غیرقانونی ہے کیونکہ انتظامیہ ان کا پاسپورٹ واپس کرچکی ہے۔

جس پر سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے 7 مارچ 2016 کو سپر ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

11 اپریل کو ان کا نام فہرست سے نکال دیا گیا تھا، جس کے بعد وزارت داخلہ اور کسٹمز حکام نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے 13 اپریل 2016 کو سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سپر ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

25 اپریل کو ایان علی کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر سپریم کورٹ نے سپرماڈل کو ای سی ایل میں دوسری بار نام شامل کیے جانے پر سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایان علی کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا

بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے 2 جون 2016 کو ایک بار پھر ماڈل ایان علی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم ایڈووکیٹ فیض الرحمان کے توسط سے دائر کی جانے والی نئی درخواست میں وزارت داخلہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ دو جون کا ہائیکورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق قابل عمل نہیں کیونکہ سپرماڈل کا نام اس لسٹ میں ای سی ایل قوانین 2010 کے تحت شامل کیا گیا تھا اور ای سی ایل پالیسی کی توثیق 16 ستمبر 2015 کو کی گئی۔

بعدازاں 15 جون 2016 کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے حکام نے ایان علی کو کراچی ایئرپورٹ سے بیرون ملک جانے والی پرواز میں سفر کرنے سے روک دیا تھا۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ سے امیگریشن حکام کو ایان علی کا نام نکالنے کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن موصول نہیں ہوا لہذا سپرماڈل کو بیرون ملک پرواز میں سفر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

ڈان نیوز کے مطابق ایان علی جو منی لانڈرنگ الزامات کا سامنا کررہی ہیں، کا نام تو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے سندھ ہائیکورٹ کے حکم سے نکال دیا گیا تھا تاہم انہیں دبئی جانے والی پرواز میں سفر کی اجازت نہیں دی گئی۔

ایان علی کی گرفتاری

یاد رہے کہ سپرماڈل کو 14 مارچ 2015 کو اسلام آباد کے بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بیرون ملک جارہی تھیں اور اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بغیر 5 لاکھ 6800 ڈالرز پاکستان سے باہر لے جارہی تھیں جس کے حوالے سے وہ کوئی قانونی جواز بھی نہیں پیش کرسکیں۔

گزشتہ سال نومبر میں ایک کسٹم عدالت نے سپرماڈل پر خلاف پانچ لاکھ ڈالرز سے زائد رقم بیرون ملک اسمگل کرنے کی کوشش کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی تھی جس میں اب تک وہ قصور وار ثابت نہیں ہوئی۔

سپرماڈل کو گزشتہ سال جولائی میں ضمانت پر رہائی ملی تھی جس سے قبل انہوں نے چار ماہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں گزارے جس دوران ان کے عدالتی ریمانڈ کی مدت میں سولہ بار توسیع کی گئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

SMH Jul 23, 2016 08:56am
جس میں اب تک وہ قصور وار ثابت نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ سپرماڈل کو 14 مارچ 2015 کو اسلام آباد کے بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بیرون ملک جارہی تھیں اور اسٹیٹ بینک کی اجازت کے بغیر 5 لاکھ 6800 ڈالرز پاکستان سے باہر لے جارہی تھیں جس کے حوالے سے وہ کوئی قانونی جواز بھی نہیں پیش کرسکیں۔ گزشتہ سال نومبر میں ایک کسٹم عدالت نے سپرماڈل پر خلاف پانچ لاکھ ڈالرز سے زائد رقم بیرون ملک اسمگل کرنے کی کوشش کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی تھی جس میں اب تک وہ قصور وار ثابت نہیں ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025