اپنے 'پیر' کے مشورے پر صدر آصف علی زرداری نے دو مرتبہ اس تقریب کو مؤخر کیا جس میں آٹھ سفیروں کو اپنی دستاویز انہیں پیش کرنی تھیں۔ فائل تصویر
اپنے 'پیر' کے مشورے پر صدر آصف علی زرداری نے دو مرتبہ اس تقریب کو مؤخر کیا جس میں آٹھ سفیروں کو اپنی دستاویز انہیں پیش کرنی تھیں۔ فائل تصویر

صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے نزدیگ غیرملکی سفیروں سے ان کی دستاویز وصول کرنے سے کہیں ذیادہ اہم ان کے روحانی پیر کے مشورے ہیں۔ کم ازکم حالیہ چند اہم سرگرمیوں سے تو یہیں ظاہر ہوتا ہے۔

ذرائع نے ڈان ڈاٹ کام کوبتایا کہ صدر زرداری نے ایک تقریب کو دو مرتبہ مؤخر کیا جس کے تحت تقریباً آٹھ غیر ملکی سفیروں کو اپنی تقرری کے کاغذات انہیں پیش کرنے تھے۔

واضح رہے کہ چین، برونائی، لبنان، یوراگوئے اور چار دیگر ممالک کے سفیر صدرِ مملکت کو اپنے کاغذات پیش کرنے کیلئے دو ہفتوں سے منتظر ہیں۔

سفارتی اصول و آداب کے تحت، غیرملکی سفیر اس وقتت تک اپنے سفارتی معمولات شروع نہیں کرسکتے جبتک وہ اس ملک کے صدر کو اپنے کاغذات نہیں پیش کردیتے۔

ذرائع نے بتایا کہ ایوانِ صدر اب سے تین ہفتے قبل ایک تقریب کا شیڈول جاری کیا گیا تھا جس کے تحت سفیروں کو اسلام آباد میں صدر کو اپنے کاغذات پیش کرنے تھے۔ لیکن صدر کراچی روانہ ہوگئے اور عملے کو مجبوراً یہ تقریب ملتوی کرنا پڑی ۔

رپورٹ کے مطابق صدر نے اپنے پیر کے مشورے پر پہاڑوں میں گھرے دارالحکومت کو چھوڑا ان کے مشورے پر ' خوش بختی' اور 'ان کے سر پر منڈلانے والی بد روحیں جھاڑنے کیلئے' ساحل سے قریب رہائش اختیار کی ہے۔

طویل عرصے تک کراچی میں صدر کی رہائش کے پیشِ نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ صوبائی دارالحکومت میں پیر ( 24 جون) کو سفارت کاروں سے ملاقات کریں گے لیکن یہ منصوبہ بھی تبدیل کردیا گیا ۔

اس بار اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ان کے پیر صاحب نے انہیں دوبارہ پہاڑی علاقے کی طرف جانے کی اجازت دیدی ہے یا نہیں۔

ایک سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ سفارتی تقرری کے کاغذات پیش کرنے کی تقریب روایتی طور پر صدر کی آفیشل رہائش گاہ میں ہوتی ہے ۔ پاکستان کے معاملے میں سفارتکاروں کو ریڈ کارپٹ پر خاص گھوڑوں کچھ دیر کیلئے سفر کرایا جاتا ہے۔

اپنے متعلقہ ملک سے آنے والے سفیروں کو دونوں مواقع پر اپنی فلائٹس کینسل کرانا پڑیں۔ اب ان سے کہا گیا ہے کہ وہ 27  جون بروز جمعرات کو اپنے کاغذات پیش کرنے کیلئے اسلام آباد میں ایوانِ صدر آئیں۔

ایوانِ صدر سے رابطہ کرنے پر اس موضوع پر کوئی بھی گفتگو کیلئے تیار نہ تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں