جاگنے کے لیے سانحے کا انتظار

اپ ڈیٹ 19 اگست 2016
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

وزیر اعظم کو گہری نیند سے اٹھنے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنی نامناسب حکمت عملی کے نتائج کو محسوس کرنے کا خیال 70 سے بھی زائد افراد کی موت کے بعد آیا۔ فوج کے دلائے گئے تحرک کے بعد بالآخر حکومت انسداد دہشتگردی کے اقدامات کو مضبوط کرنے اور ہر قسم کے خلا کو پر کرنے آگے بڑھی ہے۔

تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا اس بار سیاسی قیادت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی ہے اور ایک بار پھر اپنے کاہل طور طریقوں پر نہیں اتر آتی جیسا ہمیں 2014 میں ہونے والے پشاور اسکول سانحے کے بعد دیکھنے کو ملا تھا۔

حکومت کی جانب سے لیے گئے کچھ انتہائی اہم فیصلوں میں سے ایک قومی سلامتی کے مشیر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ ہے جو قومی ایکشن پلان کے تحت ہونے والی پیش قدمی کو مانیٹر کرے گی۔

اہم انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان کے علاوہ مانیٹرنگ کمیٹی میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بھی شامل ہوں گے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسداد دہشتگردی کے اس نظرِ ثانی شدہ ایکشن پلان میں فوج کا بہت ہی بڑا کردار ہے۔

جنجوعہ صاحب کو بطور فوکل پرسن مقرر کرنا بلاشبہ ایک اچھا فیصلہ ہے جو وزیر اعظم سے براہ راست رابطے میں رہیں گے۔ کمیٹی میں شامل لوگوں کی مدد سے انٹیلیجنس اداروں اور صوبائی سکیورٹی اداروں کے درمیان بہتر رابطہ قائم ہوگا جس کی کمی ہمیں ماضی میں دیکھنے کو ملی تھی۔

شاید سب سے زیادہ مثبت اقدام کو آرڈینیشن کا کام وزارت داخلہ سے واپس لے لینا ہے۔ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکامی کی بڑی ذمہ داری وزیر داخلہ نثار علی خان پر عائد ہوتی ہے، جن میں احساسِ ذمہ داری کی کمی کا اندازہ ملک میں ہونے والے دہشتگردی کے بڑے واقعات کے بعد منظرِ عام سے ان کی عدم موجودگی سے ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ واضح طور پر کوئٹہ میں ہونے والے قتلِ عام کے بعد بھی منظر سے غائب رہے۔

جب وہ بالآخر منظر عام پر نمودار ہوئے تو بھی اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف پوائنٹ اسکورنگ کے لیے، اس طرح دہشتگردی کے مسئلے سے توجہ ہٹ گئی جس کا تعلق براہ راست ان کے محکمے سے ہے۔

ایک ایسا شخص جس نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر باآواز بلند غم کا اظہار کیا ہو اور لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کو تحفظ فراہم کیا ہو، کیا اس سے عسکریت پسندی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟

چوہدری نثار کے کرخت رویے نے انہیں اپنی ہی کابینہ میں متنازع بنا دیا ہے۔ کئی ساتھیوں کے ساتھ تو ان کے گفتگو کی حد تک بھی تعلقات نہیں ہیں۔ کیا ایسے مزاج کے ساتھ ان پر اس انتہائی نازک موڑ پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟

اب جبکہ وزیراعظم نے دہشتگردی کے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کا اپنا عزم دہرایا ہے تو اب ایک ایسا شخص وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے جو وزارت داخلہ کے کردار کی اہمیت کے بارے میں پختہ عزائم رکھنے کے ساتھ ساتھ متحرک اور سرگرم ہو۔

دیگر اقدامات کے ساتھ حکومت نے داخلی سلامتی اور بارڈر مینیجمنٹ کے لیے پیراملٹری فورسز کے 29 نئے ونگز قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ اندرونی اور بیرونی سکیورٹی چیلنجز کی سنجیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس فیصلے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ پر اگر زیادہ اہم ترین اصلاحات نہیں لائی جاتیں، تو صرف سکیورٹی اداروں کو مضبوط کرنے سے کام نہیں چلے گا۔

جنرل راحیل شریف کی اس بات سے اتفاق کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ پاکستان میں طویل المدت امن اور استحکام کا قیام تب تک ایک دور کا خواب رہے گا جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز قومی ایکشن پلان میں اپنے حصے کا معنی خیز کردار ادا نہیں کرتے۔

انسداد دہشتگردی پالیسی کی سب سے بڑی ناکامی نئے ناموں سے کام کرنے والی کالعدم عسکریت پسند اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائیاں کرنے میں انتظامیہ کی نااہلی ہے۔

سیاسی مصلیحتوں کی وجہ سے قوانین کا منتخب استعمال ملک میں موجود پرتشدد مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا۔ اس طرح ان کالعدم تنظیموں کو سرحد پار بھی دہشتگرد حملے کرنے کے لیے پاکستانی زمین استعمال کرنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے ملکی سکیورٹی مزید خطرے میں پڑ گئی۔

بدقسمتی سے پنجاب، جو کہ وزیر اعظم کا آبائی صوبہ ہے، نے چند انتہا پسند گروہوں کی جانب اپنی مبہم پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے جو صوبے میں آزادی سے کام کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت مستقبل مزاجی کے ساتھ ان انٹیلیجنس رپورٹس کو مسترد کرتی رہی ہے جس کے مطابق جنوبی اور وسطی پنجاب اب بھی کالعدم فرقہ ورانہ تنظیموں کا مرکز اور ان کا اہم بھرتی مرکز بنا ہوا تھا۔

پنجاب نے پیراملٹری اداروں کو ان علاقوں میں آپریشن کرنے کے لیے فری ہینڈ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ امید ہے کہ اب کسی بھی قسم کی رعایت کے بغیر پورے ملک میں یکساں طور پر قانون پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ تب تک نہیں کیا جا سکتا جب تک پنجاب پیراملٹری اداروں کی پہنچ سے دور رہے، اور مخصوص عسکریت پسند گروپوں کو استثنیٰ حاصل رہے جن کی سرپرستی ماضی میں ہمارے انٹیلیجنس اداروں نے کی تھی۔

عسکریت پسندوں کی مالی لائف لائنز کاٹنا قومی ایکشن پلان کا ایک اہم نکتہ رہا ہے مگر عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے ملک کے اندر فنڈز اکھٹا کرنے اور ان کی بیرونی مالی معاونت کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ انتہاپسند فرقہ وارانہ گروہوں کو سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک سے ملنے والی فنڈنگ کو نظر انداز کردیتی ہے۔ اب یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اب اس اہم مسئلے سے زیادہ مؤثر انداز میں نمٹا جائے گا۔

اسی طرح مذہبی طبقے کی جانب سے مدرسہ اصلاحات کی مخالفت کی وجہ سے یہ معاملہ بھی تعطل کا شکار رہا۔

اصلاحات پر عمل در آمد نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ سیاسی مصلحت بھی رہی ہے، ان اصلاحات میں مذہبی درسگاہوں کے طلبہ کو مساوی مواقع فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مدرسہ تعلیم کو مرکزی نظام تعلیم میں شامل کرنے کا عمل بھی شامل تھا۔

جن مدارس کے انتہاپسند گروپوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، ان کے خلاف حکومت کی جانب سے سخت سے سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ جنجوعہ صاحب اور ان کی مانیٹرنگ کمیٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

بڑے بڑے وعدوں کے باوجود نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) ابھی تک مکمل طور پر فعال نہیں ہوئی۔ بھلے ہی اس کا بنیادی ڈھانچہ اب موجود ہے، لیکن اسے اب بھی اتنی حکومتی امداد حاصل نہیں کہ یہ اہل افراد کو بھرتی کر سکے اور یہاں تک کہ اپنا دفتر ہی قائم کر سکے۔

اس وقت یہ پولیس فاؤنڈیشن بلڈنگ کے چھوٹے سے حصے تک محدود ہے۔ نیکٹا کے سربراہ کو مانیٹرنگ کمیٹی میں شامل کرنا ایک اچھا فیصلہ تو ہے مگر اس کی باڈی کو مؤثر بنانا بھی ایک انتہائی ضروری عمل ہے۔

سول اور فوجی قیادت کے درمیان بڑھتی ہوئی عدم اعتمادی اور انسداد دہشتگردی پر ان کے مختلف بیانیے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کی سست رو پیش قدمی کی ایک بڑی وجہ رہے ہیں۔

دہشتگردی سے مقابلہ کرنے میں حکومت کی سستی پر فوجی قیادت کی مایوسی قابل فہم ہے۔ مگر یوں لگتا ہے کہ کوئٹہ سانحے نے انہیں ایک ہی صحفے پر لا کھڑا کر دیا ہے اور قومی ایکشن پلان پر دوبارہ نظر ثانی کرنے میں مدد کی ہے۔

یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ اب حکومت ملک کو درپیش چیلنجز کا سنجیدگی سے مقابلہ کرے گی اور نیند سے جاگنے کے لیے ایک اور خون خرابے کا انتظار نہیں کرے گی۔

لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 اگست 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں