'سانحہ کوئٹہ کی ذمہ دار انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی'
اسلام آباد: حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے متفقہ طور پر گزشتہ ماہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خود کش دھماکے کا ذمہ دار انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی کو ٹھہرایا اور ذمہ داروں کے تعین کے لیے واقعے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔
8 اگست کو ہونےوالے حملے کے حوالے سے بحث میں ایوان بالا کے اراکین نے نیشنل ایکشن پلان (نیپ) پر عمل درآمد میں مبینہ ناکامی پر وفاقی حکومت پر شدید تنقید بھی کی جس کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا تھا۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے کوئٹہ دھماکے کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس بیان پر اعتراض کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ حملہ دراصل پاک چین اقتصادی راہداری پر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خودکش دھماکا، 70افراد ہلاک
ان دو صوبوں کے سینیٹرز نے موقف اختیار کیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا تو ان دو صوبوں میں وجود ہی نہیں۔
بعد ازاں وزراء کی ایوان میں عدم موجودگی کے خلاف اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا جس کی وجہ سے چیئرمین اور نائب چیئرمین سینیٹ کی عدم موجودگی میں سیشن کی صدارت کرنے والے سینیٹر احمد حسن کو کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
اجلاس کے پہلے روز طے شدہ ایجنڈے پر کوئی بات نہ ہوسکی، اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے خالی حکومتی بنچوں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہاں ہم ایک بڑے دہشت گرد حملے پر بحث کے لیے جمع ہوئے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے کوئی یہاں موجود نہیں۔
مزید پڑھیں:سانحہ کوئٹہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے اہم اجلاس
اعتزاز احسن نے کہا کہ اس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے اور بعد ازاں انہوں نے واک آؤٹ کا اعلان کیا جس میں حکومتی بنچوں سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور فاٹا کے ارکان نے بھی ان کا ساتھ دیا۔
قبل ازیں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ نے ملک میں سیکیورٹی کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اب بھی افغانستان میں مداخلت کررہی ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہورہے ہیں۔
عثمان کاکڑ نے آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے دعووں پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ ’آپ محض اعداد و شمار جاری کرتے ہیں، کم سے کم آپریشن میں مارے جانے والوں کے نام ہی بتادیں'۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کئی انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کررہی ہیں لیکن وہ سب کی سب ناکام ہوچکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل
محمود اچکزئی کو قومی اسمبلی میں ان کے خطاب کی وجہ سے 'غدار' کہے جانے کے حوالے سے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ’جنہوں نے آئین کو معطل کیا انہیں مرد مومن کہا گیا لیکن جو لوگ اس کی بالادستی کی کوششیں کررہے ہیں انہیں غدار کہا گیا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر آئین کا دفاع کرنے پر ہمیں غدار قرار دیا جارہا ہے تو ہمیں فخر ہے کہ ہم غدار ہیں، فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں سیاست سے دور رہیں‘۔
متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر طاہر مشہدی نے کہا کہ کوئٹہ حملہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی کا نتیجہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی تھی لیکن کوئی بھی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں، کالعدم تنظیموں کے کارکن جنرلز کی تصاویر اٹھائے کھلے عام ریلیاں نکال رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہا'۔
طاہر مشہدی نے الزام لگایا کہ پنجاب میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں لیکن وہاں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے سانحہ کوئٹہ کو انسانیت سوز جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی کی ناکامی کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کا ازخود نوٹس لے لیا
انہوں نے کہا کہ یہ سیکیورٹی کی بہت بڑی ناکامی تھی اور مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس واقعے کی جامع تحقیقات کریں۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سحر کامران نے کہا کہ ’نیشنل ایکشن پلان کا اعلان ہوئے 2 سال ہوگئے لیکن اب بھی وہ لاشیں گن رہے ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد صرف صوبہ سندھ میں ہوا‘۔
پی ٹی آئی کے نعمان وزیر نے کہا کہ دھماکا خیز مواد کی تیاری اور نقل و حمل پر کوئی کنٹرول نہیں، دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کوئی خفیہ بنیادوں پر کارروائی نہیں ہورہی اور دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کے ذرائع کا پتہ چلانے کے لیے کوششیں نہیں کی جارہیں۔
وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ حاصل بزنجو نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مذہبی درسگاہوں کی رجسٹریشن اور وہاں طلباء کو پڑھائے جانے والے نصاب کی نگرانی کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ 'جب تک خود غرضی ختم نہیں ہوگی ہمیں ایسے حملوں کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا، شدت پسند نظریے کو ختم کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی'۔
سینیٹ میں کوئٹہ، مردان اور پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے خلاف مذمتی قرار داد بھی منظور کی گئی اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ شدت پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے، قرار داد سینیٹ لیڈر راجہ ظفر الحق نے پیش کی۔
یہ خبر 6 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی










لائیو ٹی وی