اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی۔

ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے توہین عدالت آرڈیننس 2003 کے سیکشن 3 اور 5 کے تحت درخواست دائر کی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ افتخار چوہدری موجودہ چیف جسٹس کو ذاتی فوائد کے حصول کے لئے خط لکھ کر مبینہ طور پر عدالت کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کے مرتکب ہوئے لہٰذا ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی پٹیشن کے مطابق سابق چیف جسٹس نے 2 اگست کو موجودہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو خط لکھا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12/2 میں پلاٹ کی الاٹمنٹ کے مسئلے کو حل کریں۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے حاضر سروس جج کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پلاٹ کی الاٹمنٹ کا معاملہ غیر ضروری طور پر متنازع ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: سابق چیف جسٹس پر عہدے کے غلط استعمال کا الزام

پٹیشن کے مطابق مذکورہ خط سپریم کورٹ کے لوگو کے حامل لیٹر ہیڈ پر لکھا گیا اور افتخار چوہدری نے اپنے نام کے ساتھ ریٹائرڈ جسٹس کے بجائے صرف ’جسٹس‘ استعمال کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ اب بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے علامتی نشان کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کرکے اور اپنے لیے لفظ ’جسٹس‘ استعمال کرکے انہوں نے عدالت کے ساکھ کو نقصان پہنچایا‘۔

درخواست کے مطابق ’مدعا علیہ نے غیر قانونی طریقے سے معاملے پر اثر و رسوخ استعمال کرنے کیلئے عدالت عظمیٰ کو دعوت دی اور ادارے کے لیے شرمندگی کا باعث بنے‘۔

پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سابق چیف جسٹس ادارے کا حصہ نہیں رہے لہٰذا وہ پلاٹ کی الاٹمنٹ کے حوالے سے اہلیت بھی کھو چکے ہیں۔

مزید پڑھیں:افتخار چوہدری سے اضافی مراعات واپس لینے کا مطالبہ

درخواست گزار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’سابق چیف جسٹس کی جانب سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وہ اب بھی سرکاری بلٹ پروف گاڑی استعمال کررہے ہیں جس کے پٹرول اور مرمت کے اخراجات حکومت برادشت کررہی ہے تاہم قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا‘۔

درخواست میں حوالہ دیا گیا ہے کہ 2013 میں ریٹائرڈ جسٹس افتخار چوہدری نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف عدلیہ کا مذاق اڑانے اور تنقید کرنے پر فوجداری مقدمہ درج کیا تھا جو اب بھی اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کے پاس زیر التواء ہے۔

پٹیشن میں درخواست کی گئی کہ اسی بنیاد پر سابق چیف جسٹس کو بھی عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچانے پر جوابدہ بنایا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:افتخار چوہدری کا عمران خان کو ہتک عزت کا نوٹس

درخواست گزار کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ریاست کا سربراہ بھی قانون کی پاسداری کا پابند ہے تاہم سابق چیف جسٹس مسلسل قانون کی عدم تعظیم کرتے رہے ہیں۔

پٹیشن میں ایم عنایت خان کیس میں سپریم کورٹ کے 1976 کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ کو بیرونی اثر و رسوخ سے آزاد رکھنا چاہیے تاکہ عوام کے عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری پر اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچ سکے۔

درخواست میں 1963 میں شبیر احمد کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ فراہمی انصاف کے اداروں کو داغ دار کرنے کی کوشش اور اس میں مداخلت کو توہین عدالت تصور کیا جائے گا۔


تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai Sep 09, 2016 12:50am
بدلتا ھے رنگ آسماں کیسے کیسے عدالت کی وقار والے سابق چیف جسٹس کے حلاف بھی پٹیشن داخل ھوگئی پٹیشن میں جو سوالات اٹھاۓ گئے ھیں بظاہر تو جاندار اور وزن دار لگتے ھیں اب انتظار اس بات کا رہیگا کہ عدالت اس پٹیشن کو بغیر سنے خارج کرتی ھے یا اسکو سن کر اس پر کوئی فیصلہ کرنا چاہی گی انتظار رہے گاے