کراچی کا چڑیا گھر پاکستان کا دوسرا قدیم ترین اور سب سے بڑا چڑیا گھر ہے۔

اگرچہ 1799 میں تعمیر کے بعد سے کراچی زولوجیکل گارڈن میں متعدد تبدیلیاں آئی ہیں، اسے کئی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور نام تبدیل ہوئے ہیں، مگر یہ اب بھی کراچی کی قدیم ترین یادگاروں مین سے ایک ہے۔

1775 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کو سندھ کے حکمران خاندان کلہوڑو نے اس لیے بے دخل کردیا تھا کیونکہ وہ برطانویوں کے حوالے سے شکوک و شبہات کے شکار تھے۔

بعد ازاں تالپور عہد کی ابتدا میں مقامی ہندو تاجروں نے بھی برطانویوں موجودگی پر عارضی پابندی عائد کی گئی، مگر جب تالپور خاندان نے کمپنی کے مطالبات کے سامنے سر جھکا لیا تو ناتھن کرو کو برطانوی ایجنٹ کے طور پر 1799 میں کراچی اور ٹھٹھہ بھیجا گیا۔

ان کی زیرِ قیادت ایسٹ انڈیا کمپنی نے کراچی کے صحرا جیسے مضافاتی علاقے میں 1799 میں ایک کارخانے کی بنیاد رکھی۔

کراچی کے چڑیا گھر کی ایک قدیم تصویر — فوٹو وائٹ اسٹار
کراچی کے چڑیا گھر کی ایک قدیم تصویر — فوٹو وائٹ اسٹار

اس کارخانے کے گرد و نواح میں بڑے باغات تھے۔ مشتبہ سرگرمیوں پر ناتھن کرو کو 1800 میں بے دخل کر دیا گیا اور کارخانے کو بند کر دیا گیا۔

یہ باغات حکومتی باغات بن گئے جنھیں مقامی طور پر سرکاری باغ کے نام سے جانا جاتا اور یہ 1833 میں کمانڈر چارلس کے تیار کردہ کراچی کے نقشے کا حصہ تھے۔

جب 1839 میں برطانیہ نے کراچی میں اپنے فوجیوں کے لیے کوارٹرز تعمیر کیے تو 43 ایکڑ رقبے پر پھیلے باغ کو برطانوی فوجیوں کے لیے پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کے لیے استعمال کیا جانے لگا جس کی نگرانی اسسٹنٹ کمشری-جنرل اور سپرنٹنڈنٹ آف گارڈنز میجر ڈبلیو بلینکنز کے سپرد کی گئی۔

میجر ڈبلیو بلینکنز نے باغ کو ری ڈیزائن کیا، آبپاشی کا انتظام لیاری ندی سے کیا گیا اور اس جگہ ایک ڈیری فارم کی بنیاد بھی رکھی۔ حکومت کی جانب سے اس کی مرمت و انتظام کے لیے سو روپے ماہانہ فراہم کیے جاتے ہیں۔

1900 میں چڑیا گھر کی ایک تصویر — فوٹو بشکریہ برٹش لائبریری
1900 میں چڑیا گھر کی ایک تصویر — فوٹو بشکریہ برٹش لائبریری

1847 میں میجر بلینکنز نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے دو سال تک سبسڈی نہیں لی بلکہ اس کے بجائے اس دورانیے کے دوران حکومت کے لیے 17,032 روپے کا منافع کمایا۔

یہ منافع فوجیوں کو کھانے کے لیے سبزیاں، حکومتی مویشیوں کو چارہ، نجی پارٹیوں کو فروخت اور مقامی ہسپتال کو کبوتروں، خرگوشوں اور لیچی وغیرہ کی سپلائی سے کمایا گیا۔ اس وقت یہاں کم از کم 15 کنویں اور پانی کی فراہم کا بہتر نظام بھی موجود تھا۔

جے ای اسٹاکس اپنی کتاب 'نوٹ آن دی بوٹنی آف سندھ' (1846) میں لکھتے ہیں "سر چارلس نیپئر بہترین کام کر رہے ہیں؛ انہوں نے شارعوں اور گلیوں میں شجر کاری کی اور ایک حکومتی باغ کی بنیاد رکھی، جو کہ گارڈن جھاڑیوں کا ڈپو ہے اور فوجیوں کے لیے تازہ یورپی سبزیوں کی سپلائی کا ذریعہ ہے۔"

حکومت نے اس باغ کو 1861 میں میونسپلٹی کے سپرد اس شرط پر کیا کہ اسے کرائے پر نہیں دیا جائے گا نہ ہی اس کا آگے ٹرانسفر کیا جائے گا۔ یہ 1869 میں ایک عوامی باغ میں بدل دیا گیا اور غالباً حوالگی کے کچھ عرصے بعد اس کا نیا نام کوئین وکٹوریہ گارڈن رکھا گیا جسے مقامی طور پر رانی باغی کہا جاتا تھا۔

سیاحت کے شوقین مصنف رچرڈ برٹن نے 1877 میں اس باغ میں میٹھے پانی کی دستیابی اور موسیقی کے لیے بینڈ کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ میونسپلٹی کچھ بہتری لانا چاہتی تھی اور 1878 میں ایک چڑیا گھر کی تیاری کا منصوبہ بنایا گیا جس کی انتظامی ذمہ داری ایک ٹرسٹ کے حوالے ہونی تھی۔

ہز رائل ہائنیس امام آغا علی شاہ نے نے کراچی میں ایک محل تعمیر کروایا جو 'پیر جی وادی' کے نام سے جانا تھا، جو زولوجیکل گارڈنز کے سامنے تھا۔ انہوں نے کمشنر سندھ ہنری نیپئر بروس ارسکرین سے 1882 میں باغ کے دروازے کی تعمیر کی اجازت حاصل کی۔

اس کام کا خرچہ امام آغا نے اٹھا اور اس کا سنگِ بنیاد اب بھی موجود ہے جس پر گیٹ کی تعمیر کے لیے عطیہ درج ہے۔

ایسا ہی کچھ دیگر سامراجی باغات یں بھی ہوا، ایک چھوٹے چڑیا گھر کی بنیاد 1884 میں بنجامن ٹریل ففینچ نے بطور گارڈن کمیٹی کے چیئرمین (وہ انڈو۔ یورپین ٹیلی گراف کمپنی کے ڈائریکٹر بھی تھے) کی حیثیت سے رکھی جس میں ان کی معاونت ایچ ایم برڈ ووڈ نے کی۔

کرکٹ گراﺅنڈز، بینڈ کے لیے اسٹینڈ اور مضبوط راستوں کی بنیاد رکی گئی۔ بنجامن ٹریل بیرون ملک سے پودوں کی درآمد کے خیال کے قائل تھے اور ماہرین نباتات سے مشورے لیتے تھے۔

اس حوالے سے ان کے رابطوں کی تفصیلات کیو گارڈنز لندن کے آرکائیوز میں موجود ہے۔ کراچی کے اپنے رہائشیوں نے جانوروں کے ابتدائی ذخیرے کا عطیہ کیا اور یوں ایک خوبصورت اور بہترین باغ ابھر کر سامنے آیا۔

چڑیا گھر کا ایک پرانا پوسٹ کارڈ — فوٹو بشکریہ لکھاری
چڑیا گھر کا ایک پرانا پوسٹ کارڈ — فوٹو بشکریہ لکھاری

1890 میں وہاں 93 ممالیہ اور 465 پرندے موجود تھے۔ ڈبلیو اسٹارچن کو پہلے پروفینل سپرٹنڈنٹ کی حیثیت سے 1889 میں تعینات کیا گیا جنھوں نے دس سال تک خدمات سرانجام دیں۔ ان کے جانشین یورپی سپرٹینڈنٹ اچھا کام کرنے سے قاصر رہے اور اپنی تعیناتی کے فوری بعد کام چھوڑ کر چلے گئے۔

اس کے بعد پہلی بار مقامی افراد کو اس پوزیشن پر رکھا گیا، آغاز میں علی محمد نے 1911 میں اپنی وفات تک کام کیا، ان کے بھائی علی مراد جو پہلے چڑیا گھر کے جانوروں کی نگرانی کا کام کرتے تھے، نے 1911 میں سپرٹینڈنٹ کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔

اس باغ کا دل خوبصورت انداز سے تیار کردہ وکٹورین فوارہ تھا جو 1883 میں میونسپلٹی اور این این پوچا جی نے مل کر بمبئی کے مخیر شخص کاﺅس جی جہانگیر ریڈی منی کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ 18 فٹ اونچا فوارہ 11 ہزار گیلن کے ایک ٹینک سے جڑا ہوا تھا جو پانی کو حرکت میں رکھتا۔

سندھ کے کمشنر سر ایون جیمز (1891 سے 1900) نے صوبے میں نباتات اور جانوروں میں بہت زیادہ دلچسپی لی. انہوں نے کیلیفورنیا کے انگور یہاں متعارف کروائے اور ایک وائن یارڈ باغ کا حصہ بنایا جو کہ اپنے لذیذ انگوروں کی وجہ سے مشہور ہوگیا. یہاں کئی اقسام کے انگور پائے جاتے تھے جنھیں کراچی گلاٹی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

مقامی مخیر افراد کی جانب سے عطیات کے کچھ شواہد پرانے سنگ بنیاد کی مدد سے ملتے ہیں، جن میں سے ایک میں لکھا تھا "اس پنجرے کی دھات سیٹھ ننھا مل بنارسی داس نے 1903 میں پیش کی۔"

ایک اور پر لکھا ہے "یہ پنجرہ خیرپور کے حکمران ہز ہائی نس میر سر فیض محمد خان تالپور نے 1905 میں پیش کیا۔"

1910 میں قائم ہونے والے بیومانٹ لانز ان تمام تبدیلیوں کے درمیان اپنی جگہ قائم رہے. ان لانز کو کراچی میونسپلٹی کے صدر اور چیئرمین گارڈن کمیٹی (10-1903) ٹی ایل ایف بیومانٹ کے نام پر نام دیا گیا۔

تاہم چڑیا گھر کے بارے میں 1913 سے قبل حوالے بہت کم ملتے ہیں اور اس کے بعد Furrel اور Ludlow نے تحریر کیا کہ اگرچہ کراچی ایک نیا شہر ہے جہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے زیادہ مقامات نہیں، مگر زولوجیکل گارڈن دیکھنے کے لائق مقام ہے۔

صدی کے ابتدائی حصے میں زولوجیکل گارڈن اور اس کے گرد و نواح پر پھیلا نباتاتی باغ عام افراد کے لیے اتوار کے روز کا مقبول مقام تھا۔ 1921 میں چڑیا گھر میں تین مالی، ایک کلرک اور ایک دکان تھی۔

1900 میں چڑیا گھر کے تالاب کی تصویر— فوٹو بشکریہ لکھاری
1900 میں چڑیا گھر کے تالاب کی تصویر— فوٹو بشکریہ لکھاری

یہ فوارہ 1883 میں بمبئی کی مشہور مخیر شخصیت کاؤس جی جہانگیر ریڈی منی کی یاد میں تعمیر ہوا — فوٹو بشکریہ www.historickarachi.weebly.com
یہ فوارہ 1883 میں بمبئی کی مشہور مخیر شخصیت کاؤس جی جہانگیر ریڈی منی کی یاد میں تعمیر ہوا — فوٹو بشکریہ www.historickarachi.weebly.com

1934 میں اپنے کراچی کے دورے کے دوران مہاتما گانڈھی کا اسی باغ میں شاندار استقبال ہوا جس کا انتظام کراچی میونسپل کارپوریشن نے کیا تھا۔ اس تقریب کے دوران اعلان کیا کہ اس جگہ کا نام وکٹوریہ گارڈن سے بدل کر مہاتما گاندھی گارڈن رکھا جارہا ہے۔

اس کے بعد یہ برصغیر کی تقسیم سے قبل سیاسی جلسوں کے لیے اہم مراکز میں سے ایک بن گیا۔

تقسیم کے بعد اس کا نام بدل کر کراچی زولوجیکل گارڈنز رکھ دیا گیا مگر پھر بھی یہ عام طور پر گاندھی گارڈن کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔ 1953 میں کے ایم سی نے ایک زو کیورٹر اور ایک ویٹرنری ڈاکٹر کو تعینات کیا، جب پہلے کیورٹر کا اعلان ہوا تو اس وقت بھی یہ مقام مہاتما گاندھی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

1955 میں مفت داخلے کو ختم کرتے ہوئے ٹکٹ کا نظام نافذ کیا گیا۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 11 ستمبر 2016 کو شائع ہوا.

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Sep 11, 2016 07:35pm
السلام علیکم: اگر چہ یہ مضمون گاندھی گارڈن المعروف چڑیا گھر کی تاریخ کے بارے میں ہے تاہم اگر مصنف حالیہ تصاویر اور صورتحال کے بارے میں کچھ درج کردیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ آج کل چڑیا گھر انتہائی خراب حالت میں ہے، ملازمین کی بھرمار کے باجود گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بیشتر جنگلے اور پنجرے خالی ہیں جبکہ تھوڑے سے موجود جانوروں اور پرندوں کی حالت ناقابل بیان ہے۔1890میں وہاں 93 ممالیہ اور 465 پرندے موجود تھے مگر اب2016 میں اس سے کم ہے۔ اگر کسی میں جستجو ہو تو اس حوالےسے ایک اور مضمون بھی تحریر کرسکتا ہے۔ اسی طرح قومی و بین الاقوامی کمپنیاں اگر ایک ایک جانور اور پرندے کو اسپانسر کرےتو وہاں جانے والوں کا دل گارڈن گارڈن ہوجائے گا۔ خیرخواہ