شکارپور حملے کا مقدمہ درج، کیس سی ٹی ڈی کے سپرد
حیدرآباد: صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور میں عیدالاضحیٰ کی نماز کے دوران ہونے والے خود کش حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔
مقدمہ شہداء کمیٹی کے ایک رکن سید محمد شاہ کاظمی کی مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 120 (بی)، 324، 353، ایکسپلوسیو سبسٹینس ایکٹ کی دفعات 3 اور 4 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات 6/7 شامل کی گئیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ شہداء کمیٹی 30 جنوری 2015 کو شکارپور میں نمازِ جمعہ کے دوران امام بارگاہ پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد ضلعی سطح پر بنائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں 61 افراد ہلاک اور 50 دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
مدعی محمد شاہ کاظمی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا، 'ہمیں پولیس پر اعتبار نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے خود آکر ایف آئی آر درج کروائی ہے'۔
انھوں نے بتایا کہ گرفتار ملزم کے ابتدائی بیان کی روشنی میں ایف آئی آر میں 6 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔
پولیس نے بھی تصدیق کی کہ نامزد ملزمان میں ہلاک خودکش حملہ آور عبدالرحمٰن، گرفتار حملہ آور عثمان، مبینہ سہولت کار عمر اور حفیظ (جو واقعے کے بعد سے فرار ہیں) جبکہ 2 نامعلوم ملزمان شامل ہیں۔
شکار پور کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) عمر طفیل نے بتایا کہ 'چونکہ شیعہ کمیونٹی نے خود سے ایف آئی آر درج کروائی، لہذا ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا'۔
دوسری جانب پولیس نے ضلع شکار پور کے علاقے خان پور میں سرچ آپریشن کے دوران 2 درجن مشتبہ افراد کو بھی گرفتار کرلیا۔
مزید پڑھیں:شکار پور کی عیدگاہ میں خودکش حملہ
یاد رہے کہ گذشتہ روز شکار پور میں نماز عید کے دوران خود کش حملے کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے، جنھیں بذریعہ ہیلی کاپٹر کراچی منتقل کردیا گیا تھا۔
پولیس ذرائع کے مطابق شکار پور کی تحصیل خان پور میں 2 خود کش بمباروں نے نماز عید کے دوران حملے کی کوشش کی تاہم پولیس کی بروقت کارروائی کی بدولت کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا۔
شکارپور کی ایک امام بارگاہ کے قریب روکے جانے پر 2 خود کش حملہ آوروں میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے جبکہ دوسرے خود کش بمبار کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔
پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے ایک خودکش حملہ آور کی شناخت باجوڑ کے رہائشی عبد الرحمٰن کے نام سے کی گئی جبکہ عثمان نامی خود کش حملہ آور کو گرفتار کرلیا گیا۔
پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق عبدالرحمٰن اور عثمان موٹرسائیکل پر 3 گھنٹے کا سفر کرکے شکارپور پہنچے تھے۔ اس حوالے سے پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ 'اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے ضلع جیکب آباد یا بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں کہیں قیام کیا تھا'۔
پولیس کی حراست میں موجود خودکش حملہ آور عثمان کا تعلق سوات کی تحصیل کبل سے ہے، جس نے بتایا کہ وہ کراچی کے ایک مدرسے ابو ہریرہ کا طالب علم ہے۔
ایک پولیس افسر کے مطابق 'جب دھماکے سے قبل ایک پولیس انسپکٹر نے اجرک پہنے ہوئے خودکش بمبار عبدالرحمٰن سے سوالات پوچھے تو وہ ان کے جواب نہیں دے سکا، جس پر ان کی تلاشی لی گئی'۔
انھوں نے مزید بتایا کہ 'دونوں حملہ آوروں نے افغانستان میں ٹریننگ لی تھی اور وہ ایک دوسرے کو ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے'۔
شکار پور حملہ کیس سی ٹی ڈی کے سپرد
دوسری جانب عثمان کو مزید تحقیقات کے لیے سندھ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی )کے حوالے کردیا گیا۔
انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) سندھ اے ڈی خواجہ نے بھی ڈان سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ملزم سمیت اس کیس کو مزید تحقیقات کے لیے سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا گیا ہے جبکہ شہداء کمیٹی کی شکایت پر ایس ایچ او بہار دین کیریو کا بھی تبادلہ کردیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی نے ذمہ داری قبول کرلی
شکار پور میں نماز عید کی ادائیگی کے دوران امام بارگاہ پر خود کش حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرلی۔
ٹی ٹی پی ترجمان محمد خراسانی نے میڈیا اداروں کو بھیجے گئے ایک ای میل پیغام میں حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔










لائیو ٹی وی