گزشتہ ہفتے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری سکیورٹی گیم اس قدر الجھا ہوا ہے کہ جان نیش اور تھامس ہرسانیی جیسے معاشی ماہرین کو بھی اس گیم کے نتائج کے ممکنہ فوائد و نقصانات کا تخمینہ لگانے میں سخت تگ و دو کرنا پڑے گی۔

عام طور پر لائن آف کنٹرول کے دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر بھارتی 'سرجیکل اسٹرائیکس' پر پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج ہونے چاہیے تھے اور جوابی کارروائی نہ بھی کی جاتی تو بھی دھمکی تو ضرور دی جانی چاہیے تھی۔

اس کے بجائے پاکستان نے اس بات سے ہی انکار کر دیا کہ اس پر حملہ بھی کیا گیا اور اپنے اس مؤقف کو مضبوط بنانے کی خاطر غیر ملکی صحافیوں کو ایل او سی کی یاترائیں بھی کروا رہا ہے۔

دہشتگردی اور سرجیکل اسٹرائیکس کوئی مضحکہ خیز بات تو نہیں مگر پاکستانی صحافی گل بخاری نے بہترین انداز میں ایک ایسا طنز ترتیب دیا ہے جس میں دونوں ملک، اور ان کی عوام، آج خود کو دیکھ پاتے ہیں:

اس پہیلی در پہیلی میں میں دوسرا تضاد بھی شامل کروں گا: پاکستان انکار کرتا ہے کہ ہندوستانی فورسز نے سرجیکل اسٹرائیکس کی خاطر لائن آف کنٹرول کو پار کیا، مگر بھارت کہتا ہے کہ اس نے ایسا کیا، مگر پاکستان کی حراست میں ایک ہندوستانی فوجی بھی تو ہے۔

اور بھارت — جو کہ کہتا ہے کہ اس نے اسٹرائیکس کیں مگر باضابطہ طور پر یہ بتانے سے گریز کرتا ہے کہ آیا اسٹرائیکس میں فوجی اہلکاروں کا ایل او سی کو عبور کرنا شامل تھا یا نہیں — اس بات پر زور دیتا ہے کہ پاکستانی حراست میں موجود فوجی نے بے خبری میں ایل او سی کو عبور کیا۔

پڑھیے: سرجیکل اسٹرائیکس ہوتی کیا ہیں؟

اس صورتحال نے ایک مزیدار ستم ظریفی پیدا کر دی ہے: پاکستان کے لیے اپنے مؤقف، کہ کوئی ہندوستانی حملہ نہیں ہوا تھا، پر قائم رہنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ بھارتی دعوے کو تسلیم کرے کہ بھارتی جوان نے غلطی سے سرحد پار کی۔

بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کرنے کے بارے میں سنسنی خیز مگر کنجوسی کی حد تک مختصر بیان کی وجہ سے میڈیا میں تمام اقسام کی غیر مصدقہ اور تصوراتی کہانیاں کو گردش کرنے کا موقع مل گیا ہے۔

صاف کہوں تو بھارتی ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز، لیفٹینٹ جنرل رنبیر سنگھ نے 20 ستمبر کو آن دی رکارڈ فقط یہ بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے پار دہشتگرد ٹھکانوں کے خلاف سرجیل اسٹرائیکس کی گئیں جس کے نتیجے میں ’بھاری تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں‘۔

اس کے بعد جونیئر وزیرِ اطلاعات راجیہ وردھن راٹھوڑ کی جانب سے آن دی رکارڈ محض یہ معمولی معلومات فراہم کی گئی کہ ’ذرائع‘ سے آنے والی رپورٹس کے برعکس ایل او سی کو پار کرنے کے لیے کوئی ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کیے گئے تھے اور یہ کہ فضائی حملے نہیں کیے گئے تھے۔ تاہم ڈی جی ایم او نے اپنی بات کے دوران یہ واضح نہیں کیا کہ کتنی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں اور نہ ہی ان کی شناخت کروائی۔

یہ تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں کہ سرجیکل اسٹرائیکس میں شامل کون تھا، آیا اسپیشل فورسز نے سرحد پار کی — جس کا دعویٰ بھارتی میڈیا نے ان ’ذرائع' کے حوالے سے کیا جو کبھی آن دی ریکارڈ نہیں آئیں گے — یا یہ کہ ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے روایتی مارٹر گولوں کا استعمال کیا گیا تھا۔

آخر حکومت نے باضابطہ طور پر یہ بے ضرر مگر اہم معلومات عوامی سطح پر کیوں جاری نہیں کی ہیں؟ ایک ممکنہ وجہ یہ ڈر ہوسکتا ہے کہ جتنی زیادہ مخصوص تفصیلات دی جائیں گی اتنا ہی پاکستانی فوج کے لیے اپنے اوپر کوئی بھارتی حملہ نہ ہونے کے اپنے دعوے کو ثابت کرنا مزید مشکل بن جائے گا، چنانچہ جوابی کارروائی کم و بیش ناگزیر بن جائے گی۔

لیکن اگر یہی بات تھی تو پھر بھارتی میڈیا پر مبالغہ آمیز رپورٹس چلانے کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ بلاشبہ حکومت جانتی ہے کہ اس سے بھی سرحد کی دوسری طرف جوابی کارروائی کے جذبات کو ایندھن فراہم ہوگا۔

بھارت کی جانب سے اس سے پہلے سرحدی خلاف ورزیوں کے معاملے کو کبھی بھی عوامی سطح پر نہیں لایا گیا تھا، مثلاً سرحد کی خلاف ورزی کرنے پر جنوری 2013 میں ایک بھارتی فوجی کا سر کاٹ دیا جانا۔ پھر فوج نے فیصلہ کیا کہ دوسری طرف پیغام بغیر مشہوری کے، اور تنازعے کو بڑھانے کا دباؤ ڈالے بغیر بھی چلا جائے گا۔

مزید پڑھیے: سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوتوں کیلئے بھارت میں آوازیں بلند

مگر آج حکومت ایک وسیع دعوے کے ساتھ عوامی سطح پر جانے کا انتخاب کر چکی ہے — مگر سرحد پار سے آنے والے رد عمل کو دیکھتے ہوئے یہ صاف واضح نہیں ہوا کہ آیا پیغام دوسری جانب گیا بھی ہے یا نہیں۔

قومی سلامتی کے تحفظات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپریشن کے بارے میں زیادہ تفصیلات بتانے پر حکومتی غیر آمادگی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے؟ بہرحال، اس بات کو مانتے ہوئے کہ بھارتی فوج نے بلاشبہ ایل او سی کے پار 7 مقامات پر اسٹرائیک کیں، ظاہر ہے کہ وہ مقامات ان دہشتگرد گروپس کے لیے پوشیدہ تو نہیں ہوں گے جنہیں نشانہ بنایا گیا تھا اور نہ پاکستانی فوج کے لیے پوشیدہ ہوں گے جو ان گروپس کی نقل و حرکت سے واقف ہے اور انہیں (الزاماً) تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس لیے ان سات اہداف کی لوکیشنز نہ بتانے کا کوئی بھی جواز نہیں بن سکتا۔

بھارت کو ان لوکیشنز کا علم کیسے ہوا، اگر یہ معلومات منظرِ عام پر لانے سے بھارتی انٹیلیجنس صلاحیتیوں سے پردہ اٹھتا ہے تو ہاں انہیں منظرِ عام پر نہیں آنا چاہیے۔ مگر یہ لوکیشنز کون سی تھیں اور ہدف کسے بنایا گیا، یہ بتانے سے نہ ہی بھارت کی قومی سلامتی پر آنچ آتی ہے اور نہ ہی اس کی انٹیلیجنس معلومات اکٹھی کرنے کی صلاحیتوں سے پردہ اٹھتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے پاس پہلے ہی یہ معلومات ہیں۔

اسی طرح بھارتی حکومت کے پاس ہر ایک مقام پر ہونے والی ہلاکتوں کا درست اندازہ اپنے تک رکھنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی کیونکہ یہ معلومات پاکستان کو پہلے سے ہی حاصل ہوں گی۔ اگر, مثال کے طور پر، بھارتی اسپیشل فورسز نے ایک مخصوص مقام پر لشکر طبیہ کے 10 دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا، تو اس مقام کی معلومات تو لشکر طبیہ کے سربراہ اور پاک فوج کو تو پہلے سے حاصل ہوگی۔ لہٰذا اس معلومات کو بھی باآسانی عوامی سطح پر لایا جا سکتا ہے۔

جہاں تک بات ویڈیو فوٹیج کی موجودگی کی ہے تو اسے ایک حد تک حساس بھی تصور کیا جاسکتا ہے، اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ ایسی فوٹیج کو ریلیز ہونا ضروری ہے۔ ویسے بھی ہدف بنائی گئی جگہوں کا انکشاف کیے بغیر فوٹیج دکھانا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آپریشن کی تفصیلات جو کہ پاکستان کو پہلے سے معلوم ہیں، انہیں عوامی سطح پر لانے کے بجائے حکومت وہ معلومات لیک کر رہی ہے جو وہاں نشانہ بننے والی پاکستانی فوج اور دہشتگرد گروپس کو حاصل نہ ہو اور جو انہیں حاصل ہونی بھی نہیں چاہیے۔

بھارت میں کچھ خبروں میں ان خصوص یونٹس کی نشاندہی کی جا رہی ہے جو کہ سرجیکل اسٹرائیک میں شامل تھے۔ یہ حقیقت کہ کمانڈوز سرحد پار کرنے سے تھوڑا پہلے بذریعہ ہیلی کاپٹر ایل او سی تک لائے گئے، مجھے لگتا ہے کہ یہ آپریشن کی ایک ایسی تفصیل تھی جسے شیئر نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔

تو اگر ڈی جی ایم او کی جانب سے معلومات خفیہ رکھنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس سے پاکستان کو جوابی حملے کے لیے جواز ملے گا، اور اگر جیسا کہ ہم نے اوپر بھی دیکھا کہ، آپریشن کے بارے میں بنیادی حقائق کو چھپانے کا قومی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں ہے، تو پھر حکومت معلومات کا پٹارہ کھولنے سے انکاری کیوں ہے؟

جانیے: 'بھارتی دعوے کے ثبوت نہیں مل سکے'

جس طرح اجے شکلا نے سوال کیا ہے کہ، کیا اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ نشانہ بنائے گئے اہداف فوجی نکتہ نظر سے کچھ خاص اہمیت کے حامل نہیں تھے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا یہ سیاسی حساب لگایا گیا ہے کہ اس حقیقت کے منظرِ عام پر آنے سے حکمران جماعت کو اگلے الیکشن میں پہنچنے والا فائدہ، اگر کوئی ہو تو، کم ہو سکتا ہے؟

چند دن پہلے جب میں دی وائیر کے ساتھ ایک فیس بک لائیو وڈیو پر تھا تو اس وقت میں ایسے ہی سوال پوچھنے والے لوگوں کی تعداد دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ ان کے لیے میری اپنی رائے یہ تھی کہ: مہربانی فرما کر اپنی تنقید کو قابو میں رکھیں۔

بھلے ہی حکومت ماضی میں اپنی کارروائیوں کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کر چکی ہے — مثلاً، فروری 2015 میں’ دہشتگردوں کی کشتی‘ کا واقعہ — مگر یہ حقیقت کہ سرجیکل اسٹرائیکس باآسانی، پاکستان کے زیر انتظام آبادی سے بھرے علاقے میں، جو سمندر میں بھی واقع نہیں، ایسے حالات میں ایسا ممکن نہیں کہ آپریشن نہیں ہوا، جیسا کہ اسلام آباد دعویٰ کرتا ہے۔

جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا، اگر وہ چھوٹے ’ظاہر اور آسان' اہداف تھے — جن کے پیچھے بھارتی فوج ماضی میں بھی گئی ہے — یہ حقیقت ہے کہ حکومت کا ان معلومات کو عوامی سطح پر لانا دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کی حکومتی حکمت عملی میں مکمل طور پر ایک تبدیلی کا اشارہ دیتی ہے۔

یہ ایک الگ بات ہے کہ بھارت میں سرحد پار سے ہونے والی دہشتگردی کے خطرے کو کم — اور پھر ختم — کرنے کے اسٹریٹجک مقاصد کو تقویت دینے کے لیے نئی حکمت عملی پرانی کے مقابلے میں شاید ہی کارگر ہو۔

مگر فی الحال وقت ہے کہ حکومت 29 ستمبر کے سرجیکل اسٹرائیکس کے بارے میں زیادہ کھل کر بات کرے۔ کم سے کم اسے وہ معلومات عوامی سطح پر لانی چاہیے جو کہ پاکستان پہلے ہی اپنے پاس رکھتا ہے۔

یہ مضمون سب سے پہلے دی وائر، انڈیا میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

rizwan Oct 06, 2016 03:40pm
جہوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے . ہاہاہاہاہاہاہاہا اب یہ فقرا نہی چلے گا دوست حقیقت یہ ہے کہ جب کبہی پاکستان انڈیا کو کہینچ کر مذاکرات کی میز لاتا ہے تو کبہی ممبئ ، سمجہوتا ایکسپرس وغیرہ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں اور الزام تراشی پاکستان پر--- اور پاکستان ثبوت مانگے تو وہ کہاں فقط غیر مستند اور جھوٹی کہانیاں -- اور انڈیاجو دہشتگردی (جسکے دعوے انڈین حکومت خود کرتی ہے) پاکستان میں کروارہا ہے وہ..............