اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضلعی انتطامیہ کو 2 نومبر کو کنٹینرز لگاکر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دھرنوں سے شہر بند کرنے سے روکنے دیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے 2 نومبر کو عمران خان کو اسلام آباد بند کرنے سے روکنے کے حوالے سے دائر عام شہریوں کی 4 درخواستوں کی سماعت کی۔

اس موقع پر سیکرٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد اور چیف کمشنر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ 2 نومبر کو دھرنے کے دن اسلام آباد میں نہ تو کوئی کنٹینر لگے گا اور نہ ہی سڑکیں بند ہوں گی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو سڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف کمشنر یقین دہانی کروائیں کہ کوئی سٹرک بند نہیں ہوگی، کوئی ہسپتال بند نہیں ہوگا، کوئی سکول بند نہیں ہو گا، نہ ہی امتحانات کا شیڈول تبدیل ہوگا اور حکومت کنٹینرز لگا کر سڑکیں بند نہیں کر ے گی۔

معزز جج نے حکم دیا کہ احتجاج کے لیے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے جگہ مختص کی گئی ہے، لہذا سیاسی جماعتیں وہاں احتجاج کریں۔

یاد رہے کہ 2014 میں سی ڈی اے نے اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیوں اور دھرنوں کے لیے ایک جگہ مختص کی تھی، جسے 'ڈیموکریسی پارک اینڈ اسپیچ کارنر' کہا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:اسلام آباد دھرنا: پی ٹی آئی اور حکومت کی 'تیاریاں'

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مزید ریمارکس دیئے کہ امپائر صرف پاکستان کی عدالتیں ہیں، آن گراﺅنڈ، آف گراﺅنڈ اور ریزرو امپائر بھی پاکستان کی عدالتیں ہی ہیں۔

عدالت نے آئی جی اسلام آباد پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی قتل کرنے کا اعلان اور ارادہ کرے تو کیا آپ قتل ہونے کا انتظار کریں گے؟

جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ہم ضروری اقدامات کریں گے جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ 'آپ نے پہلے دھرنوں سے سبق نہیں سیکھا؟حکومت سوئی ہوئی ہے ابھی تک کچھ نہیں کیا، لگتا ہے وہ حکومت کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں۔'

کمرہ عدالت میں چیئرمین تحریک انصاف کی تقاریر کی ریکارڈنگز بھی چلائی گئیں۔

عدالت نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہا کہ پیمرا کی جانب سے پیش کردہ ریکارڈنگ کے مطابق بادی النظر میں دھرنے کا پروگرام احتجاج نہیں بلکہ حکومتی مشینری کو کام کرنے سے روکنے کا منصوبہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: ’گرفتاریوں کی صورت میں پی ٹی آئی کا پلان بی جاری‘

عدالت نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ہدایات کیں کہ عمران خان کو تحریری طور پر آگاہ کیا جائے کہ دھرنے کے لیے مخصوص جگہ پر اپنا حتجاج کریں دوسری صورت میں قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

مزید کہا گیا کہ اسلام آباد کی حدود میں راستوں کی بندش کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

تحریری حکم نامے میں بھی کہا گیا کہ تعلیمی اداروں، تجارتی مراکز اور ہسپتالوں کے سامنے احتجاج نہیں ہوگا۔

عدالت نے 31 اکتوبر کو عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا جبکہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ عمران خان کی ان تقاریر کا ریکارڈ پیش کریں، جن میں انھوں نے 2 نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے کی بات کی تھی اور پی ٹی آئی چیئرمین کی موجودگی میں ان کی تقاریر کی ریکارڈنگز چلائی جائیں جبکہ عمران خان وضاحت کریں کہ انہوں نے کیسے بیان دیا کہ راستے بلاک کرکے حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے۔

بعدازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی اگلے ماہ 2 نومبر کو پاناما لیکس اور کرپشن کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے جارہی ہے اور عمران خان کا مطالبہ کہ وزیراعظم نواز شریف یا تو استعفیٰ دیں یا پھر خود کو احتساب کے سامنے پیش کردیں۔

مزید پڑھیں: ’دھرنا کامیاب بنانے کے لیے پی ٹی آئی کے رابطے‘

اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت دونوں ہی تیاریوں میں مصروف ہیں، ایک طرف پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو دھرنے کی تیاریوں کا کہہ رکھا ہے وہیں پولیس کی اسپیشل برانچ نے حکومت کو ان افراد کی فہرستیں فراہم کردی ہیں، جنھیں اسلام آباد کے محاصرے سے قبل گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

تاہم ایک سینئر لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت تحمل سے کام لے گی اور اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی جب تک کوئی قانون کو ہاتھ میں نہ لے۔

تبصرے (0) بند ہیں