• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

’عمران خان قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار ہوجائیں‘

شائع November 4, 2016
دانیال عزیز، انوشہ رحمٰن اور بیرسٹر ظفر اللہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے—۔فوٹو/ اے پی پی
دانیال عزیز، انوشہ رحمٰن اور بیرسٹر ظفر اللہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے—۔فوٹو/ اے پی پی

اسلام آباد: حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان پر پاناما لیکس پر سامنے آنے والے عدالتی فیصلے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر میڈیا کے سامنے پیش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اب وہ عدالت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں دائر ہونے والی پٹیشنز کے سامنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز نے وفاقی کابینہ کے ارکان وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن اور وزیراعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق بیرسٹر ظفر اللہ کے ہمراہ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی سماعت کے بعد عمران خان کے بیانات پر ردعمل کا اظہار کیا۔

حکومتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے بچے پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی اپنی 3 آف شور کمپنیوں سے متعلق جواب پیر 7 نومبر کو سپریم کورٹ میں جمع کرائیں گے۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

انوشہ رحمٰن کا کہنا تھا کہ 'ہم وزیراعظم کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کراچکے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ ان پر لگائے جانے والے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں، نہ ہی نوازشریف کا نام پاناما پیپرز میں موجود اور نہ ہی کوئی فلیٹ یا آف شور کمپنی ان کی ملکیت ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'وزیراعظم نے اپنے بچوں کو اپنے زیر کفیل ظاہر نہیں کیا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے ہر سال ان کی سالانہ آمدن ظاہر کی جاتی ہے۔'

وزیرمملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے عمران خان کے وکیل حامد خان کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود عدالت میں اعتراف کرچکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس وزیراعظم کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں اور عدالت اس معاملے میں تفصیلی تفتیش کا حکم جاری کرے۔

انوشہ رحمٰن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کمرہ عدالت سے نکلنے کے بعد میڈیا کے سامنے جھوٹ بولا کہ وزیراعظم کی قانونی ٹیم نے کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ کو الجھانے کی کوشش کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دراصل سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی جانب سے ان پٹیشنز کے قابل سماعت ہونے سے متعلق اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔

انوشہ رحمٰن نے یہ بھی بتایا کہ جب قانونی ٹیم نے وزیراعظم سے ملاقات کی تو ان سے سوال کیا گیا کہ اس معاملے کے قابل سماعت ہونے کا سوال اٹھایا جائے یا نہیں لیکن وزیراعظم نواز شریف نے اس سے منع کردیا۔

انوشہ رحمٰن نے نواز شریف کے الفاظ کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’ سپریم کورٹ کو اس بات کا فیصلہ کرنے دیا جائے‘۔

ظفراللہ خان نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ نواز شریف نہیں چاہتے تھے کہ ان کی قانونی ٹیم کسی ایسی باریکی کی نشاندہی کرے جو عدالتی کارروائی کو متاثر کرے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: سپریم کورٹ کی کارروائی پر وزیراعظم کا 'خیرمقدم'

ظفر اللہ خان نے مزید بتایا کہ نواز شریف کا جواب 24 گھنٹے کے نوٹس پر تیار کیا گیا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کا حکم تھا کہ وزیراعظم یکم نومبر کو اپنا جواب جمع کرادیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم نواز شریف کے داماد ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر کے خلاف دائر ہونے والی پٹیشنز کے جوابات بھی ان کی جانب سے جمع کرائے جاچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

وزیراعظم کے مشیر کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن میں اپنے خلاف دائر ہونے والی پٹیشنز کا جواب ایک سال سے نہیں دے رہے۔

انہوں نے کہا کہ اب عمران خان کی باری ہے کہ اپنی آف شور کمپنی کے خلاف دائر شدہ پٹیشنز کے جوابات دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 7 نومبر کا دن عمران خان کی پٹیشنز کی سماعت کے لیے طے کیا جاچکا ہے اور ہم سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں پاناما لیکس کے کیس کے ساتھ شامل کردیا جائے تاکہ سارے معاملات کا ایک ساتھ ہی فیصلہ ہوجائے۔

رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ پاناما پیپرز 14 اپریل کو سامنے آئے تھے اور وزیراعظم نواز شریف نے 20 دن میں ہی چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو خط لکھ دیا تھا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کریں۔

یہ خبر 4 نومبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025