کبھی پاکستان کے سب سے بڑے کرنسی ڈیلر کہلانے والے الطاف خانانی نے گزشتہ ہفتے امریکی عدالت میں منی لانڈرنگ کا اعتراف کرلیا۔

الطاف خانانی کو 20 سال تک قید اور 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جبکہ استغاثہ کے ساتھ ان کا اعتراف جرم کا سمجھوتہ 27 اکتوبر 2016 کو طے پایا۔

الطاف خانانی کو گزشتہ برس ستمبر میں امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے کیے گئے (اسٹنگ) خفیہ آپریشن کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ جیل میں ہیں۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق الطاف خانانی کو فلوریڈا کے جنوبی ڈسٹرکٹ کی عدالت کی جانب سے جون 2015 میں منی لانڈرنگ کے 14 الزامات میں فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد پاناما سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ان پر عائد کیا گیا ایک الزام منی لانڈرنگ کی سازش جبکہ بقیہ 13 الزامات رقوم کی ٹرانسیکشن سے متعلق تھے جنہیں منی لانڈرنگ قرار دیا گیا۔

الطاف خانانی نے منی لانڈرنگ کا الزام تسلیم کیا اور اعتراف جرم کرلیا جس کے بعد امریکی اٹارنی کے دفتر نے ان پر عائد دیگر 13 الزامات کو ختم کرنے کی درخواست کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: انڈرورلڈ سے تعلقات پر الطاف خانانی گرفتار

سمجھوتے کی دستاویز کے مطابق جس پر خانانی کے دستخط بھی موجود ہیں، استغاثہ اور خانانی کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کو منظور کرلیا گیا کیوں کہ ’ملزم نے اپنی بدعنوانیوں کے خلاف تحقیقات کرنے والوں اور استغاثہ کے ساتھ تعاون کیا‘۔

انہیں اب عدالت کے پروبیشن آفیسر کی جانب سے تحقیقات کا سامنا ہے جو جرم کی نوعیت کا تعین کرے گا جس کا خانانی نے اعتراف کیا ہے جبکہ سمجھوتے کی شرائط کا بھی جائزہ لے گا جو خانانی کو اس بات کا پابند بناتے ہیں کہ ’پروبیشن آفس کو ان حالات کی مکمل ، درست اور تفصیلی معلومات فراہم کرے جن میں یہ جرم کیا گیا‘۔

خانانی نے سمجھوتے میں رضاکارانہ طور پر 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر فوری ادا کرنے پر رضا مندی ظاہر کی جبکہ بیرون ملک منتقل کیے جانے والے فنڈز پر ملنے والے کمیشن اور گرفتاری کا سبب بننے والے خفیہ آپریشن کے دوران ملنے والی رقم بھی واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

باوجود اس کے کہ الطاف خانانی پر فرد جرم محض رقم کی اس ٹرانسفر پر عائد کی گئی ہے جو انہوں نے خفیہ آپریشن کے دوران کی تھی لیکن توقع ہے کہ استغاثہ سے ہونے والے سمجھوتے کے بعد خانانی رضاکارانہ طور پر بہت سی معلومات فراہم کرچکے ہیں.

ڈیل سے تقریباً دو ہفتے قبل 11 اکتوبر کو امریکی محکمہ خزانہ نے ان اداروں کی نئی فہرست جاری کردی تھی جن کے خانانی کی کمپنی کے ساتھ روابط تھے جبکہ مزید چار افراد کے نام بھی سامنے لائے گئے۔

ان چار افراد میں الطاف خانانی کے بھائی 55 سالہ جاوید خانانی، بیٹے 29 سالہ عبید خانانی اور حذیفہ خانانی جبکہ الزارونی ایکسچینچ کے منیجر عاطف پولانی شامل ہیں۔

ڈیل میں خاص طور پر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ استغاثہ الطاف خانانی کی سزا کے حوالے سے نرمی برتنے کی سفارش کرے گا اگر ’ڈیل ہونے سے قبل خانانی کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات غلط ثابت نہ ہوئیں‘۔

الطاف خانانی کو سزا سنائے جانے کے لیے 25 نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔

خفیہ آپریشن

الطاف خانانی کو پھنسانے کے لیے خفیہ آپریشن دسمبر 2014 میں شروع ہوا تھا جب ان کے ایک کلائنٹ نے جو دراصل مخبر تھا انہیں ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن (ڈی ای اے) کے انڈر کور ایجنٹ سے ملوایا تھا۔

خفیہ ایجنٹ نے خانانی کو کہا کہ اس کے پاس کچھ فنڈز ہیں جو اسے منشیات کی فروخت سے حاصل ہوئے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ رقم بیرون ملک سے امریکا لائی جائے اور میامی اور فلوریڈا میں موجود اکاؤنٹس میں پہنچائی جائے۔

مزید پڑھیں: امریکا: منی لانڈرنگ کے جرم میں 4پاکستانی بلیک لسٹ

خفیہ آپریشن کی تفصیلات عدالت دستاویز میں پیش کی گئیں جو ڈان نے حاصل کیں، ان دستاویز کے مطابق خانانی نے خفیہ ایجنٹ سے رقم لینے کی حامی بھرلی اور امریکا سے باہر موجود بزنس اکاؤنٹس کے ذریعے رقم واپس کردی جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ رقم قانونی طریقے سے منتقل کی گئی۔

7 جنوری 2015 کو الطاف خانانی اور خفیہ ایجنٹ کے درمیان رقم کی پہلی لین دین ہوئی جب ریاست نیو جرسی کے علاقے نارتھ آرلنگٹن کے ایک ریسٹورنٹ میں ایجنٹ کالے بیگ میں رقم لے کر انتظار کررہا تھا۔

ایجنٹ کے پاس ایک ٹوکن تھا جو اسے خانانی نے دیا تھا جس پر ڈالر کے نوٹ کا ایک سیریل نمبر درج تھا، اس موقع پر خانانی کا بندہ پہنچتا ہے اور وہ ایک تصویر دکھاتا ہے جس میں وہی سیریل نمبر درج ہوتا ہے جو خفیہ ایجنٹ کو دیا گیا تھا تاکہ اسے آسانی سے شناخت کیا جاسکے۔

ڈی ای اے کے خفیہ ایجنٹ نے ٹوکن ملانے کے بعد سیاہ بیگ اس شخص کے حوالے کردیا۔

اس کے بعد خانانی نے ایجنٹ کے ساتھ متعدد بار ٹیلی فون پر بات چیت کی اور رقم کی وصولی، ٹرانسفر کی تاریخ اور مستقبل میں مزید رقم کی لانڈرنگ کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔

پانچ دن بعد 12 جنوری کو 96 ہزار 936 ڈالر متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی مزاکاجنرل ٹریڈنگ ، ایل ایل سی کے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اکاؤنٹ سے ڈی ای اے کی جانب سے بینک آف امریکا کے میامی میں کھولے گئے اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے۔

اس ٹرانسفر کے لیے خانانی نے 3 فیصد بطور کمیشن اپنے پاس رکھا۔

اگلے ہی روز نیو جرسی میں مزید دو لاکھ ڈالر خانانی کو منتقلی کے لیے فراہم کیے گئے اور یہ رقم 13 دن بعد 26 جنوری کو اسی طرح میامی کے بینک اکاؤنٹ تک پہنچی۔

اس عرصے کے دوران خانانی اور خفیہ ایجنٹ کے درمیان کئی بار ٹیلی فون پر تبادلہ خیال ہوا جس میں رقم کی منتقلی میں تاخیر کا معاملہ اٹھایا گیا اور ایک بار پھر خانانی کو یہ بتایا گیا کہ جو رقم منتقل کی گئی وہ منیشات کی فروخت سے حاصل کی گئی تھی۔

مجموعی طور پر خانانی اور خفیہ ایجنٹ کے درمیان اس طرح کی 13 ٹرانسیکشن ہوئیں جن کی کل مالیت 12 لاکھ ڈالر بنتی ہے۔

نیوجرسی کے علاوہ ڈیلاس، ہیوسٹن اور اٹلانٹا میں بھی خانانی کے ایجنٹس کو رقوم فراہم کی جاتی رہیں اور کم سے کم رقم 14 ہزار 975 ڈالر جب کہ زیادہ سے زیادہ 2 لاکھ ڈالر خانانی کے ایجنٹس کو دیے گئے۔

فرد جرم میں آخری ٹرانسیکشن کا ذکر کیا گیا ہے جو 16 اپریل 2015 کو ہوئی اور تمام رقم بینک آف امریکا میں ڈی اے ای کے اکاؤنٹ میں آتی رہیں تاہم جہاں سے یہ رقوم آرہی تھی ان کا مقام تبدیل ہوتا رہا۔

رقوم کی پہلی پانچ منتقلی مزاکا ایل ایل سی کے مختلف بینک اکاؤنٹس سے ہوئیں جبکہ تین ٹرانسفرز انفنٹی انٹرنیشنل لمیٹڈ کے اکاؤنٹس سے کیے گئے جس کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک برطانوی منی ٹرانسفر کمپنی ہے۔

17 فروری کو سب سے بڑی ٹرانسفر کموڈیٹی سولوشنز لمیٹڈ کے اکاؤنٹ سے کی گئی جس کی ویب سائٹ پر اسے ایک پیشہ ور کموڈیٹیز ٹریڈنگ کمپنی بتایا گیا تاہم ویب سائٹ پر املا اور گرامر کی کئی غلطیاں موجود تھیں اور اس کا اکاؤنٹ اطالوی بینک Intesa Sanpaolo میں تھا۔

دیگر دو ٹرانسفرز امارات کے این بی ڈی بینک اکاؤنٹ سے ہوئیں اور یہ اکاؤنٹ جیٹ لنک ٹیکسٹائل ٹرینڈنگ لمیٹڈ کا تھا جو بظاہر دبئی میں قائم ہے۔

اس تمام خفیہ آپریشن کے دوران خانانی فعال مسلسل انڈر کور ایجنٹ سے رابطے میں رہا۔

عدالتی دستاویز کے مطابق ’تمام ٹیلی فونک گفتگو ریکارڈ ہورہی تھیں اور ان کی نگرانی کی جارہی تھی، تمام ٹیکسٹ میسجز کو بھی محفوظ رکھا جارہا تھا جبکہ اسکائپ پر ہونے والی بات چیت بھی ریکارڈ کی جارہی تھی۔اسکائپ سیشن کے دوران ملزم کو باآسانی دیکھا جاسکتا ہے جو انڈر کور ایجنٹ سے بات کررہا تھا، ان سیشنز میں ماضی میں ہونے والی رقوم کی منتقلی اور مستقبل کی ٹرانسیکشنز کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کی گئی جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ملزم ہی وہ شخص ہے جس کے ساتھ خفیہ ایجنٹ اس تمام آپریشن کے دوران رابطے میں رہا‘۔

خانانی منی لانڈرنگ آرگنائزیشن

مجموعی طور پر مذکورہ کمپنیوں اور ان کے ساتھ وابستہ اداروں کو امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے خانانی منی لانڈرنگ آرگنائزیشن (ایم ایل او) کا نام دیا جس کے بارے میں امریکی محکمہ خزانہ کا دعویٰ ہے کہ ’یہ سالانہ اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہے‘۔

کارروائی آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات کے قانونی نافذ کرنے والے اور فنانشل کرائم یونٹس ، ایف بی آئی، ڈی ای اے اور یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے اشتراک سے عمل میں لائی گئی۔

الطاف خانانی کی گرفتاری کے دو ماہ بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ’خانانی ایم ایل او دنیا بھر میں منظم جرائم میں ملوث گروپس اور نامزد دہشت گرد گروپس کے لیے منی لانڈرنگ کرتا ہے‘۔

پریس ریلیز میں دبئی میں قائم کرنسی ڈیلنگ کمپنی الزارونی ایکسچینج کا نام بھی شامل کیا گیا اور کہا گیا کہ خانانی ایم ایل او ’چینیوں، کولمبیئن اور میکسیکن جرائم پیشہ گروپس اور حزب اللہ سے وابستہ انفرادی شخصیات کو منی لانڈرنگ کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ خانانی ایم ایل او نے دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھی منی لانڈرنگ کی۔ خانانی ایم ایل او کے سربراہ الطاف خانانی اور الزارونی ایکسچینج طالبان کے لیے فنڈز کی منتقلی میں ملوث رہے ہیں اور الطاف خانانی لشکر طیبہ، داؤد ابراہیم ، القاعدہ اور جیش محمد سے تعلقات کے حوالے سے مشہور ہے‘۔

یہ خبر 7 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں