سلور اسکرین پر اپنے سب سے زیادہ پہچانے جانے والے سپرہیروز کی شناخت قائم کرنے کے بعد کامک بک کمپنی مارول نے تاریکی میں چھپے کرداروں پر کام کا آغاز کردیا۔

سب سے پہلے گارجینز آف دی گلیکسی (2014) کے عجیب و غریب کرداروں پر روشنی ڈالی گئی جس کے بعد آنٹ مین (2015) میں ایسے سپر ہیرو کو متعارف کرایا گیا جو چیونٹی جتنے سائز کا ہوسکتا تھا۔

دونوں فلمیں روایتی سپر ہیرو والی خصوصیات پر مبنی نہیں تھیں مگر پھر بھی کامیاب رہیں، اب مارول نے ڈاکٹر اسٹرینج کو پیش کیا ہے، یہ ایک ایسی فلم ہے جو اس کامک بک کمپنی کی دیگر کاوشوں سے بالکل مختلف ہے اور یہ تجربہ بھی کامیاب ثابت ہوا۔

ڈاکٹر اسٹرینج ایک شاندار فلم ہے جس میں بہترین اسپیشل ایفیکٹس فلم 'انسپشن' (2010) کی یاد دلاتے ہیں۔

اس کے رنگ واہمے جیسے لگتے ہیں اور اسپیشل ایفیکٹس حقیقی دورے جیسے ہیں، یعنی ہم نے کبھی تخیلاتی پرواز نہیں کی مگر ڈاکٹر اسٹرینج دیکھتے ہوئے ہم نے بہت کچھ تصور کیا۔

کامک بک کے کسی بھی پرستار کی بات کی جائے تو یہ خوش کن اور حیران کن حد تک مستند ہے، درحقیقت 1971 میں مارول کے پڑھنے والوں نے ڈاکٹر اسٹرینج کے پیچھے موجود ذہنوں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ کامک بک لکھتے ہوئے جادوئی مشرومز کھاتے رہے تھے۔

اس کے ایکشن سیکونس فلم میں خاص طور پر تفریح بخش ثابت ہوئے، خصوصاً جب جادو کا مقابلہ دکھایا گیا، یہ اتنے متاثر کن تھے کہ وہ ان آئیکونک فنٹاسی فلموں سے بھی بہتر تھے جن میں جادو کو لوگوں کی توجہ کے لیے فروخت کیا جاتا ہے، ان میں لارڈ آف دی رنگز سیریز اور ہیری پوٹر فلمیں شامل ہیں۔

ڈاکٹر اسٹرینج کا ایکشن مکمل طور پر قائل کردینے والا تو نہیں مگر اسپیشل ایفیکٹس مارشل آرٹس کو راستہ دیتے ہیں۔

یہ فلم اچھے کرداروں کو بھی پیش کرتی ہے جن کی اداکاری بھی دیکھنے کے لائق ہے، خاص طور پر استاد کا کردار۔

بینڈیکٹ کمبربچ اس فلم میں اسٹیفن اسٹرینج کے کردار میں نظر آئے، ایک متکبر نیورو سرجن جو ایک گاڑی کے حادثے کے بعد شدید زخمی ہوگیا۔

اسٹرینج نے کئی طرح کا علاج کرایا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوسکا، اگرچہ وہ ذہنی طور پر انتشار کا شکار ضرور ہوا مگر امید سے محروم نہیں ہوا، آخر کار وہ ایک ایسے مفلوج شخص سے ملا جس نے دوبارہ ٹانگوں کا استعمال شروع کردیا تھا اور یہ جانا کہ نیپال میں ایک پراسرار مقام پر اس کا علاج ہوسکتا ہے۔

کمار تاج پہنچنے پر اس کی ملاقات اینشیئنٹ ون (Ancient One) یعنی ٹلڈا سوئنٹن سے ہوئی جو کہ اسٹرینج کے سامنے طاقتور اور پراسرار طاقتوں کا استعمال کرتی ہے، جلد ہی اینشیئنٹ ون اور اس کا ساتھی کارل مورڈو (Chiwetel Ejiofor) اپنے نئے دوست کو جادو کے فن کی تربیت دینے لگتے ہیں۔

اسی اثناءمیں ڈاکٹر اسٹرینج کی انا Kaecilius (میڈز میکیکلسن) کی یاد دلاتی ہے جو کہ جادو جاننے والا سپر ولن ہے اور زیادہ طاقت حاصل کرنے کا بھوکا ہے، جلد ہی اچھی اور شیطانی طاقتوں کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے۔

کمبربچ اپنے کردار میں چھائے نظر آئے، خاص طور پر ان کا بی بی سی کے شرلاک کا ذہین کردار کرنے کا تجربہ کافی کام آیا، اس کے ساتھ ساتھ فلم میں معیاری مزاح کو بھی پیش کیا گیا جو کہ اس کے مزاج کو کافی ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔

ہمارا واحد اعتراض ڈاکٹر اسٹرینج میں دکھائے جانے والے ایشیائی کرداروں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک ہے، ہولی وڈ میں کئی اچھے ایشیائی اداکار موجود ہیں مگر پھر بھی ایشیائی کرداروں کے لیے یورپی افراد کا انتخاب کیا گیا۔

اس فلم میں اینشیئنٹ ون کے کردار کے ساتھ یہی کیا گیا اور یہ وہ پہلو ہے جہاں ڈاکٹر اسٹرینج یقیناً اپنے کچھ جادو سے محروم ہوجاتا ہے۔

یہ مضمون 13 نومبر کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں