'بے نام' جائیداد پر قابض افراد کے خلاف کارروائی کا فیصلہ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو خیراتی اداروں، ٹرسٹ اور مذہبی اداروں کے نام پر جائیدادیں بنانے والوں کے خلاف کارروائی کا اختیار دینے کی حمایت کردی، دوسری جانب اسٹیٹ بینک نے بینک ریکارڈز تک ایف بی آر کو رسائی دینے کی مخالفت کر دی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے خیراتی اداروں اور ٹرسٹ کو بے نامی بل میں دی گئی چھوٹ ختم کرنے کی حمایت کردی ہے۔
کمیٹی کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا جس میں کمیٹی اراکین نے مطالبہ کیا کہ خیراتی اداروں، ٹرسٹ یا مذہبی اداروں کے نام پر بے نامی جائیدادیں بنانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
کمیٹی اراکین نے بے نامی بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرکار کو کسی کی بے نامی جائیداد پر قبضے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، بل میں لوگوں کی جائیداد ضبط کرنے کی شق شامل نہ کی جائے۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بے نامی بل میں کسی بھی جگہ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ بے نامی جائیداد رکھنے پر سخت سزا اور جرمانے کی سفارش کی گئی ہے، جرم ثابت ہونے پر ایک سے سات سال قید کی سزا ہوسکے گی، بے نامی جائیداد ضبط اور اس کی کل قیمت کا 25 فیصد جرمانہ بھی ہوگا۔
اجلاس میں اسٹیٹ بینک نے بھی بے نامی ٹرانزیکشن بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، اسٹیٹ بینک حکام کا کہنا تھا کہ جائیداد سے متعلقہ امور صوبائی معاملہ ہے، اس کے قانونی جواز کو دیکھا جائے۔
حکام نے بتایا کہ اس بل کے تحت ایف بی آر کو بینک ریکارڈ قبضے میں لینے کے اختیار پر بھی اسٹیٹ بینک کو تحفظات ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بینکوں کا سارا نظام ہی اعتماد پر چلتا ہے، اگر ایف بی آر ایسا کرے گا تو یہ نقصان دہ ہوگا۔
کمیٹی نے اسٹیٹ بینک کو اپنے تحفظات تحریری طور پر کمیٹی کو بھجوانے کی ہدایت کردی۔
دوسری جانب ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ بے نامی بل کا اطلاق صرف ایسے اداروں پر ہوگا جو جائیداد پر قابض ہوں گے۔










لائیو ٹی وی