' میں ابھی تک زندہ ہوں'

25 نومبر 2016
بانا ال عبید — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر پیج
بانا ال عبید — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر پیج

اس کے بال گلابی ربنز میں پونی ٹیل کی شکل میں بندھے ہوئے تھے اور یہ سات سالہ بچی بانا ال عبید اپنے آبائی قصبے حلب کے ملبے کا معائنہ کررہی ہے جس کے بعد وہ چہرے کی جانب دیکھتی ہے۔

اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ کے فالورز بتاتے ہوئے کہتی ہے’ میں بہت افسردہ ہوں، یہ بہت برا ہے’۔

اسی ویڈیو میں کچھ دیر بعد وہ ایک بینر اٹھائے کھڑی ہوتی ہے جس پر لکھا ہے ‘ حلب کے ساتھ کھڑے ہوں، پلیز بمباری روکی جائے اور گھیراﺅ ختم کیا جائے’۔

یہ بچی اس وقت خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے اس شہر میں مقیم ہے جو اس وقت شدید جھڑپوں کی زد میں ہے یعنی حلب، جہاں دن بھر کسی نہ کسی جگہ بمباری ہوتی رہتی ہے جس کا زیادہ تر شکار عام شہری ہی بنتے ہیں۔

یہ ننھی بچی اپنے شہر کی تباہ حالی، اپنے خوف اور زندگی کا احوال اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے شیئر کرتی ہے جہاں اس کے فالورز کی تعداد 99 ہزار کے قریب ہے۔

اس بچی کا سوشل میڈیا اکاﺅنٹ اس خانہ جنگی کا احوال بتاتا ہے جو کہ صدر بشار الاسد اور ان کے مخالفین کے درمیان لگ بھگ چھ سال سے جاری ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں ہی اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

گزشتہ چند ہفتوں کے تعطل کے بعد دوبارہ فضائی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس نے حلب کے اس مشرقی حصے کی حالت تباہ کن بنادی ہے جہاں باغیوں کا قبضہ ہے اور مقامی افراد کو خوراک، ادویات اور ایندھن کی قلت کا سامنا ہے۔

بانا کا ٹوئٹر اکاﺅنٹ اس کی والدہ سنبھالتی ہیں جس میں شہر کی بمباری کی شکار عمارات اور گھر مں اس بچی کی مصروفیات کو دکھایا جاتا ہے۔

ابھی جمعہ یعنی آج ہی ایک ٹوئیٹ میں اس اکاﺅنٹ پر بانا کے گھر کے قریب ہونے والی بمباری کے مناظر دکھائے گئے۔

اسی طرح ایک پوسٹ میں وہ لکھتی ہے 'گڈ آفٹر نون فرام حلب، میں جنگ کو بھلانے کے لیے مطالعہ کررہی ہوں'۔

اسی طرح گزشتہ روز ایک پوسٹ میں لکھا تھا ' گڈ مارننگ فرام حلب، ہم ابھی تک زندہ ہیں، بانا'۔

یا یہ بھی کہا ' میں ابھی تک زندہ ہوں، میرے لیے فکر کرنے والوں کا شکریہ، بانا ، حلب'۔

کچھ دنوں پہلے ایک پوسٹ میں اس ننھی پری نے لکھا تھا ' میرے خاندان کے لیے دعا کریں کیونکہ اگر ہم حلب سے نکل نہ سکیں تو ہم مارے جائیں گے'۔

ایک جگہ اس نے لکھا 'جب میں مسکراتی ہوں تو کوئی نہیں جانتا کہ میری زندگی کتنی مشکل ہے'۔

جب خبررساں ادارے رائٹرز نے ٹوئٹر کے ذریعے پوچھا کہ ان پیغامات سے کیا مقصد حاصل ہوسکے گا؟ تو بانا کی والدہ فاطمہ نے کہا ' یہ درحقیقت لوگوں کو ہماری زندگیاں دکھانے کی کوشش ہے تاکہ وہ ردعمل ظاہر کرسکیں، ہمارے خیال میں ہم یہاں صرف ٹوئیٹ ہی کرسکتے ہیں، اپنے گھر کے قریب اور اپنے علاقے کے کھنڈرات کی ویڈیوز ہی دکھاسکتے ہیں'۔

اس بچی کے ٹوئیٹس دنیا بھر میں توجہ حاصل کررہے ہیں اور ان میں ایک دنیا بھر میں جانا پہچانا نام بھی شامل ہے۔

گزشتہ دنوں فاطمہ نے ہیری پوٹر سیریز لکھنے والی مصنفہ جے کے رولنگ کو ٹوئیٹ کیا کہ ان کی بیٹی اس جادوئی سیریز کو پڑحنا چاہتی ہے جس پر رائٹر اور ان کے ایجنٹ نے فوری طور پر ردعمل کا اظہار کیا اور اسے ای بکس ارسال کیں۔

بانا نے اس پر ٹوئیٹ کرکے شکریہ بھی ادا کیا اور اپنی تصویر شیئر کی جس میں وہ ان ای بکس کو پڑھ رہی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

ahmakadami Nov 26, 2016 12:21am
who is this? with approach to internet in allepo? when the city is in rubbles, no electricity, no internet and no water?