گریجوئیشن کا طالب علم ہر وقت اچھی ملازمت اور پُر آسائش مستقبل کے خواب دیکھتا رہتا ہے، جس میں وہ خود کو ٹائی لگائے ایئر کنڈیشنڈ آفیس میں بیٹھے فائلوں کی ورق گردانی کا تصور کر رہا ہوتا ہے، انٹر کام پر ڈھیر سارا کام سیکریٹری کے حوالے کرتا ہے تو دل ہی دل میں خوش ہو جاتا ہے۔

یہ سب حقیقت ہو جانا ناممکن بھی نہیں مگر سچ یہ ہے کہ ایسا صرف کچھ لوگوں کے لیے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ گریجوئیشن کرتے وقت طالب علم بلکل مطمئن ہوتے ہیں کہ ملازمت تو ہمیں مل ہی جانی ہے۔

بہت سے نوجوانوں کو تو یہ تک کہتے سنا جاتا ہے کہ سرکاری ملازمت ملی تو کریں گے ورنہ نہیں۔ یا پھر یہ بھی سننے کو مل جاتا ہے کہ سرکاری ملازمت میں بندے کو زنگ لگ جاتا ہے، ملازمت تو بھئی پرائیویٹ ہی کرنی ہے۔

مگر یہ باتیں اس وقت ٹھیک ہیں جب گریجویٹس کانووکیشن میں ڈگری لے کر نکلیں اور اپنا گاؤن ہی نہ اتاریں کہ انہیں ملازمت دینے والا ان کا آرڈر ہاتھ میں لیے کھڑا ہو۔

ظاہر ہے کہ ایسا تو نہیں ہوتا اور جب نوجوان ڈگری لے کر عملی میدان میں پہنچتے ہیں تب انہیں تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ پھر وہ آخرکار اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ اپنی مرضی تو چھوڑو بس کوئی بھی کام مل جائے جس سے چار پیسے آئیں اور بے روزگار ہونے کے طعنے سے جان چھڑائیں۔

پڑھیے: لنکڈ اِن: روزگار اور ملازمت کے لیے کیسے مددگار؟

مگر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ کچھ افراد کے لیے ملازمت کا حصول ممکن ہو جاتا ہے اور دوسروں کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ چلو مان لیا کہ کافی جگہوں پر ناانصافی اور میرٹ کا فقدان اہل امیدواران کو نوکری سے محروم کر دیتا ہیں مگر جہاں ایسا نہیں وہاں کیوں چند امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں اور دوسرے رہ جاتے ہیں؟

عام طور پہ تو یہ شکوہ سرکار سے ہوتا ہے کہ وہ ملازمت کے مواقع فراہم نہیں کر رہی مگر اکثر سرکاری اداروں میں جتنی گنجائش ہوتی ہے اتنے ملازم بھرتی ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کہیں تو ضرورت سے زیادہ اسٹاف بھرا ہوتا ہے اور کہیں اہم آسامیاں بھی خالی پڑی ہوتی ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ بے روزگاری سے تنگ گریجوئیٹ سرکاری نوکری کا ہر اشتہار دیکھ کر وہاں درخواست دینے میں دیر نہیں کرتے، چاہے وہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کی سند رکھنے والوں کے اہل امیدواروں کی ہی آسامی کیوں نہ ہو۔

اس کی ایک عام مثال پرائمری اور ہائی اسکول میں اساتذہ کی آسامیاں ہیں، جن کے اشتہار اخبار میں آتے ہی ہزاروں گریجوئیٹ درخواست دیتے ہیں اور میٹرک و انٹر پاس امیدواروں کو آسانی سے مات دے کر پاس ہو جاتے ہیں، اور پھر جیسے جیسے انہیں اپنی اہلیت کے مطابق دوسری ملازمت کے مواقع حاصل ہوتے جاتے ہیں وہ درس و تدریس کی ملامت چھوڑ کر جاتے رہتے ہیں، یوں یہ آسامیاں دوبارہ خالی ہو جاتی ہیں جنہیں دوبارہ بھرتے بھرتے وقت لگ جاتا ہے۔

پڑھیے: کیا نوکریوں کے لیے حکومت کا انتظار کرتے رہنا چاہیے؟

سرکار کے بعد باری آتی ہے نجی اداروں کی جہاں ہر فرد سرکاری اداروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سچائی سے کام کرتا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ اگر وہ خود ادارے کا سربراہ ہوگا تو ادارے سے سچائی فطری طور پر ہونی ہی ہے اور اگر صرف ملازم ہے تو بھی اسے یقین ہے کہ جب بھی کام میں کمی آئی، مالک نکال باہر کرے گا جو بات سرکاری اداروں میں کم ہی نظر آتی ہے۔

یہ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا سچ ہے کہ ملازمت نہ ملنے کا باعث آسامیوں کا نہ ہونا نہیں بلکہ بڑا سبب یہ ہے کہ اداروں کو جن لوگوں کی ضرورت ہے وہ انہیں مل نہیں پاتے۔

اگر آپ کہیں بھی کوئی ایسا سروے دیکھیں جس میں بے روزگاری کے اسباب جمع کیے گئے ہوں تو زیادہ تر یہی سبب دیکھنے کو ملے گا کہ ادارے کو جس قسم کے ملازم کی ضرورت تھی، ایسا کوئی امیدوار انہیں ملا ہی نہیں، یا پھر آنے والے میں سے کسی نے بھی ٹیسٹ انٹرویو میں متاثر کن جواب نہیں دیے۔ یہی سبب ہے کہ آج کل آنے والی ہر آسامی میں تجربہ لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔

نوجوان اکثر یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ نوکری ملے گی تو تجربہ بھی حاصل ہوگا۔ نوکری ہی نہیں ملی تو تجربہ کہاں سے لائیں؟ لیکن وہ خود کو کچھ دیر کے لیے ملازمت لینے کے بجائے دینے والے ان مالکان کی جگہ رکھ کر دیکھیں، جہاں ادارے کے مالی اخراجات اور آمدنی کا توازن بھی انہی مالکان کی ذمہ داری ہو تو ایسے میں کوئی کسی غیر تو کیا اپنے کو بھی اپنے ادارے میں ملازمت دینے سے کترائے گا۔

کون یہ چاہے گا کہ کسی ایسے شخص کو ملازمت دی جائے جسے تنخواہ دینے کے عوض سروسز حاصل نہ ہوں، اُلٹا اسے الگ سے ٹریننگ دینی پڑے؟ یہ بات سنتے ہی نوجوان پوچھتے ہیں تو پھر ہم کیا کریں؟ کہان سے لائیں تجربہ جس سے ہمیں ملازمت کا حصول ہو؟

تجربہ حاصل کرنا اتنا بھی مشکل نہیں، بس تھوڑی محنت اور وقت کا صحیح استعمال آنا ضروری ہے۔ آپ کو اس کا ایک اچھا موقع تو اس وقت مل جاتا ہے جب سیمیسٹر بریک کا وقت آتا ہے اور فراغت ملتی ہے۔ ویسے تو چھٹیوں کا مقصد آرام یا دُشوار موسم سے جان چھڑا کر خوشگوار موسموں والے علاقوں میں وقت بتانا ہوتا ہے، پر اگر کریئر بہتر بنانا ہو تو اپنے سبجیکٹ سے متعلق کوئی مختصر ٹریننگ ڈھونڈھ لی جائے۔

مثلاً کوئی سماجی علوم کا طالبِ علم ہے تو کسی این جی او کو جوائن کرے، آئی ٹی میں ہے تو کسی سافٹ ویئر ہاؤس جائے، یا پھر انجینیئرنگ کر رہا ہے تو کسی انڈسٹری میں جا کر انٹرن شپ کرے۔ ٹریننگ کے ذریعے تجربہ حاصل کرنے کا ایک تو سیمیسٹر بریک کا وقفہ اچھا وقت ہے اور دوسرا گریجوئیشن کے فوراً بعد کا وقت۔

اس طرح کی ٹریننگز اکثر مفت فراہم ہوتی ہیں۔ کہیں کہیں آپ کو چار پیسے بھی مل جاتے ہیں، جبکہ چند جگہوں پر آپ سے ایسی ٹریننگ کے بدلے پیسے مانگے بھی جاسکتے ہیں، لیکن اگر چند پیسوں میں آپ کی صلاحیتوں میں بہتری پیدا ہو تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ اس ٹریننگ نے جو مستقبل میں فائدہ دینا ہے، اس کا کوئی مول نہیں۔

پڑھیے: فارغ وقت کیسے گزاریں؟

نوجوانوں کو ایسا مشورہ دینے پر یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ملازمت ملنے کا ایک ہی حل ہے پیسا یا پھر سفارش۔ یہ اہلیت اور تجربے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس بات سے انکار تو نہیں کہ یہ سلسلہ ہمارے پاس برسوں سے چل رہا ہے اور بد قسمتی سے تھمنے کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے مگر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بڑھتی آبادی، توانائی کی کمی کے پیش نظر مستقبل کی منصوبہ بندی کے سبب روزگار کے مواقع دن بہ دن کم ہو رہے ہیں اور کام میں آئے دن آنے والی جدت نے بھی انفرادی صلاحیتوں کے حامل ملازمین کی طلب بڑھا دی ہے۔

یہی سبب ہے کہ اداروں کو اپنے مطلب کا بندہ نہیں مل رہا اور ڈگری ہاتھ میں لیے نوکری کے لیے مارے پھرتے نوجوانوں کو ملازمت نہیں مل پا رہی۔

اکثر نئے گریجوئیٹس تو امتحانات کے فوراً بعد امتحانی سلپ لے کر نوکری ڈھونڈھنے نکل پڑتے ہیں جنہیں خاطر خواہ جواب ملنا مشکل ہوتا ہے۔ کہیں ملازمت حاصل ہو بھی جائے تو وہ ان کے مزاج یا معیار کی نہیں ہوتی، جس وجہ سے وہ امیدوار بیزار ہو کر ملازمت چھوڑ دیتے ہیں اور ایسی ملازمت سے فارغ وقت بتانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ ہی یہیں سے شروع ہوتا ہے۔

کیوں کہ گریجوئیشن کے فوراً بعد اپنے مطلب کی ملازمت نہ ملنے پر فارغ بیٹھ کر اچھی نوکری کا انتظار کرتے کرتے جو وقت گذرتا ہے وہ ہمارے کریئر پر داغ ہے۔

پڑھیے: اچھی سرکاری نوکری کا شارٹ کٹ

آپ جتنا زیادہ وقت بنا کام یا تجربے کے گذاریں گے آپ کے لیے انٹرویو اتنا زیادہ دشوار ہوگا۔ کیوں کہ جس طرح نئے گریجوئیٹس سے تجربہ پوچھا جاتا ہے، اسی طرح کچھ سال پہلے گریجوئیشن کرنے والوں سے گریجوئیشن کے بعد اب تک گذرے وقت کی مصروفیت پوچھی جاتی ہے کہ اب تک آپ کہاں اور کیا کر رہے تھے؟ اس کا جواب اگر "کچھ نہیں بس ایسے ہی فارغ تھا" دیا تو سمجھیں آپ کی چھٹی۔

اسی لیے گریجوئیشن کے بعد کسی نہ کسی ملازمت یا پروفیشنل کام سے وابستہ رہنا چاہیے۔ اس طرح چند پیسے کے ساتھ تجربہ بھی حاصل ہوتا رہے گا اور کہیں اچھی آسامی کے لیے انٹرویو دینے جائیں گے تو یہ مسئلہ نہیں ہوگا کہ 'فارغ بیٹھا تھا' بلکہ آپ یہ کہہ پائیں گے کہ 'ابھی انٹرویو دینے آیا ہوں'۔ ملازمت دینے والے بھی ایسے امیدواروں سے خوش ہوتے ہیں جن کے پاس متعلقہ تجربہ ہو پھر چاہے وہ کتنے بھی چھوٹے یا غیر معروف ادارے سے حاصل کیا ہوا کیوں نہ ہو۔

کچھ صورتوں میں نئے گریجوئیٹس بارہا کوششوں کے باوجود اپنے مطلب کا کام حاصل نہیں کر پاتے۔ ایسے میں بھی فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کہ پوسٹ گریجوئیشن کی طرف پیش قدمی کی جائے کیونکہ کسی انٹرویو میں اپنا موجودہ اسٹیٹس فارغ کے بجائے اگر طالب علمی کا ہے تو بھی اچھا تاثر رہے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

ali Dec 11, 2016 03:02pm
ڈاکٹر عبدالحفیظ لغاری صاحب ںے بھت اچھے انداز نوجوانوں کا احوال بیان کیا . کمو بیش ھر نوجواں کا یھی حال ہے. یهاں پر کیرئر counseling کا ںا ھونا بھی بھت برا مسلا ھے- رہی بات سفارش اور میرٹ کے ںا ہوںے کی تو یہ PPP پر برا داغ ھے جسے وہ مٹانا بھی ںہی چاھتے- میریٹ بوہت ضروری ہے
محمد علی Dec 11, 2016 03:51pm
ڈاکٹر عبد الحفیظ کی تحریر نوجوانوں کے لئے آئینہ بھی ہے تو مشعل راہ بھی.
AK Dec 13, 2016 02:36pm
Described problem and provided solutions and ideas . . . . keep it up please.