ریاض: سعودی عرب کے فرماں رواں شاہ سلمان نے جنگ زدہ ہمسایہ ملک یمن میں بیرونی مداخلت کو مسترد کردیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شوریٰ کونسل کے نئے سیشن کی تقریب کے موقع پر اپنے خطاب میں سعودی فرماں رواں شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ 'ہم یمن کے داخلی معاملات میں کسی بیرونی مداخلت کو قبول نہیں کریں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اور نہ ہی ان کا ملک یہ قبول کرے گا کہ 'کسی ریاست یا کسی پارٹی کو ایک بیس یا ایک راستہ دیا جائے تاکہ وہ خطے اور سعودی عرب کے استحکام اور سیکیورٹی کیلئے خطرے کا باعث ہوسکے'۔

واضح رہے کہ انھوں نے اپنے خطاب میں کسی ملک کا نام واضح نہیں کیا تاہم سعودی حکام ماضی میں ایران اور لبنان کی حزب اللہ کو یمن میں مداخلت کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کا سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت محدود کرنے کا فیصلہ

خیال رہے کہ مارچ 2015 میں سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحادی افواج نے یمن کے صدر منصور الہادی کی مقامی فورسز کی مدد کیلئے حوثی قبائل کے خلاف فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

ان حملوں کا آغاز ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب حوثی قبائل نے یمن کے صدر کی فوجوں کو دارالحکومت صناء میں لڑائی کے بعد شہر سے باہر دھکیل دیا تھا، جبکہ اس سے قبل وہ ملک کے بیشتر حصے کا کنٹرول بھی حاصل کرچکے تھے۔

حوثی قبائل نے سعودی سرحد پر متعدد حملے اور راکٹ فائر کیے جس سے 110 شہری اور فوجی ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ حوثی قبائل نے سعودی علاقوں میں دور تک مار کرنے والے میزائل بھی فائر کیے۔

گذشتہ ماہ بین الاقوامی تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے مبینہ طور پر ایران کے 'پائپ لائن ہتھیار' برآمد کیے ہیں جو صومالیہ سے یمن منتقل کیے جانے تھے۔

دوسری جانب عرب اتحاد پر بار بار یمن میں شہری ہلاکتوں کا الزام لگایا گیا ہے اور حال ہی میں امریکا نے سعودی عرب کو مخصوص گائیڈڈ ہتھیاروں کی فروخت معطل کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

یاد رہے کہ سعودی فرماں رواں شاہ سلمان کے 31 سالہ بیٹے اور ریاست کے نائب فرماں رواں شہزادہ محمد بن سلمان، جو ملک کے وزیر دفاع بھی ہیں، یمن مہم کے ذمہ دار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی وزراء کی تنخواہوں میں 20 فیصد کمی کا اعلان

شاہ سلمان نے اس سے قبل یہ نشاندہی کی تھی کہ ریاض یمن کے سیاسی حل کے لیے تیار ہے، جس کی سیکیورٹی 'سعودی عرب کے اندرونی معاملات سے تعلق رکھتی ہے'۔

یہ بھی یاد رہے کہ یمن جنگ میں 7000 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں بڑی تعداد شہریوں کی ہے۔

یمن جنگ میں مداخلت کے باعث سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہونے والا نقصان اس کے علاوہ ہے۔

سعودی عرب میں پیٹرول، بجلی اور پانی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث رواں سال ستمبر میں نائب فرماں رواں کی سربراہی میں سعودی کابینہ نے سخت گیر اعلانات کیے تھے۔

برطانیہ، یمن میں جنگی جرائم کا ذمہ دار، حوثی رہنما

اے ایف پی کی علیحدہ رپورٹ کے مطابق یمن کے حوثی قبائل کے رہنما نے برطانیہ کو یمن میں جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کے فراہم کردہ ہتھیار سعودی عرب کی جانب سے یمن کے لوگوں پر برسائے جارہے ہیں۔

عبدالعزیز بن ہبتور نے الزام لگایا کہ برطانیہ نے کلسٹر بم سعودی عرب کو فروخت کیے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ مذکورہ بم یمن کے حوثی قبائل پر گرائے جائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں