ریگولیٹریز کو وزارتوں کے ماتحت کرنے پر اپوزیشن کی کڑی تنقید
اسلام آباد: ملک کے 5 ریگولیٹری اداروں کو متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کرنے کے فیصلے پر حکومتی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے سینیٹ میں اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ حکومت کے اس اقدام کا مقصد نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو اپنے ماتحت کرنا ہے۔
سینیٹ میں اپوزیشن کے اراکین، جن میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے ہے، حکومت کو مذکورہ فیصلے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا، اور الزام لگایا کہ حکومت نیپرا کو اپنے ماتحت کرنا چاہتی ہے کیونکہ مذکورہ ریگولیٹری اتھارٹی نے سمشی توانائی پیدا کرنے والے ایک ادارے کی جانب سے بجلی کے ٹیرف میں غیر حقیقی اضافے کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حکومت کے اس اقدام کا مقصد اتھارٹی کو متعدد نئے منصوبوں کے ٹیرف کا تعین کرنے سے محروم کرنا ہے، جس میں نندی پور پلانٹ بھی شامل ہے۔
چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حکومتی فیصلے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے پالیسی بیان جاری کرنے کے بعد اس معاملے پر ایوان میں بحث کی اجازت دی، جس میں وزیر قانون نے حکومت کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریگولیٹری اتھارٹیز کو کیبنٹ ڈویژن کے ماتحت وزارتوں کو منتقل کرنا کچھ غیر معمولی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: پانچ ریگولیٹری ادارے متعلقہ وزارتوں کے ماتحت
خیال رہے کہ ایک اہم پالیسی فیصلہ لیتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے 19 دسمبر کو 5 ریگولیٹریز کا کنٹرول ان کی متعلقہ وزارتوں کو منتقل کردیا تھا اور اس فیصلے سے بظاہر کابینہ ڈویژن کے تحت ان کی آزادی کو محدود کردیا گیا۔
اس حوالے سے کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق نیپرا، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، فریکونسی ایلوکیشن بورڈ اور پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو ان کی متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کردیا گیا ہے۔
پالیسی بیان دینے کے بعد وزیر قانون زاہد حامد یہ کہہ کر ایوان سے چلے گئے کہ ان کی وزارت کے حکام بحث کے نکات نوٹ کرلیں گے جن کا جواب وہ جمعہ کے روز ایوان میں دیں گے۔
جس کے بعد بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے کہا کہ 'یہ فیصلہ ایسا ہی ہے جسے مرغیوں کی رکھوالی پر کسی لومڑی کو لگا دیا جائے'۔
انھوں نے پانچوں اتھارٹیز کے چیئرمینز کو تجویز دی کہ وہ حکومت کا 19 دسمبر کے نوٹیفکیشن 'نظر انداز' کردیں۔
سینیٹر اعتزاز احسن نے دعویٰ کیا کہ 'حکومت کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے اور یہ کہ اس (نوٹیفکیشن) کی کوئی اہمیت نہیں ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: ماتحت اداروں کی منتقلی پر سندھ اور خیبرپختونخوا کو اعتراض
انھوں نے مزید کہا کہ ان ریگولیٹری اتھارٹیز کو وزارتوں کے ماتحت کردیا گیا ہے جہاں یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ صارفین کے مفادات کا خیال رکھیں گی۔
پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ پانچ ریگولیٹری اتھارٹیز تو صرف ایک دھوکہ ہے اس کا اصل مقصد نیپرا کو وزارت پانی اور بجلی کے ماتحت کرکے اس کے عوامی مسائل کے حل اور جانچ پڑتال کے عمل سے توجہ ہٹائی جاسکے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ حال ہی میں سمشی توانائی پیدا کرنے والے ادارے نے بجلی کے نرخ 14 روپے فی یونٹ کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے نیپرا نے مسترد کردیا اور یہ بات طاقتور ادارے اور اس کی پشت پر موجود لوگوں کو ناگوار گزری۔
فرحت اللہ بابر نے چیئرمین سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلے کو تحقیقات کیلئے کمیٹی کے حوالے کریں اور فیصلے کے مرحکات اور اصل حقائق کو سامنے لایا جائے۔
ان کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ دیگر بہت سے منصوبے موجود ہیں جن کے ٹیرف کا تعین نیپرا کی جانب سے کیا جانا ہے۔
انھوں نے پیش گوئی کی کہ حکومت اصل مقصد حاصل کرلینے کے بعد مذکورہ نوٹیفکیشن سے دستبردار ہوجائے گی۔
مزید پڑھیں: ’صوبوں کو اختیارات کی منتقلی روکی گئی تو تاریخ حساب لے گی‘
پی پی کی سینیٹر سہر کامران نے الزم لگایا کہ حکومت ملک کو 'شریف انٹرپرائزز' بنانا چاہتی ہے اور حکومت کا یہ فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر محمد علی سیف نے نیپرا کے چیئرمین اور اس کے اراکین کی اہلیت کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں متعدد شکایات درج ہیں۔
حکومت کے موقف کا دفاع کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہدہ اللہ خان نے کہا کہ ریگولیٹری اتھارٹیز کو کیبنٹ ڈویژن کو منتقل کرنے کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کا ان پر سے براہ راست کنٹرول ختم ہوجائے گا۔
جس پر ایم کیو ایم کے ایک اور سینیٹر طاہر مشہدی نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت 'اداروں کی تباہی اور پارلیمنٹ کو نظر انداز' کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
حکومتی وضاحت
اس سے قبل وزیر قانون زاہد حامد نے سینیٹ کو بتایا تھا کہ وزارتوں کو صرف اتھارٹیز کا انتظامی کنٹرول منتقل کیا گیا ہے اور یہ وزیراعظم کی صوابدید پر کیا گیا۔
انھوں نے وضاحت پیش کی کہ 'مذکورہ یادداشت وفاقی حکومت کے انتظامی قوانین کے مطابق جاری کی گئی ہے، انھوں نے کہا کہ یہ اس سے قبل بھی ہوتا رہا ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور اس یاد داشت میں کچھ بھی غیر معمولی نہیں'۔
زاہد حامد نے کہا کہ 90 کی دہائی میں متعدد مرتبہ ان ریگولیٹری اتھارٹیز کو مختلف ڈویژنز کو منتقل کیا جاتا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اب بھی متعدد ریگولیٹری اتھارٹیز، جن میں نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی، ڈرگز ریگولیٹری اتھارٹی، پاکستان کوالٹی کنٹرول اتھارٹی، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اور اسٹیٹ بینک شامل ہیں، اپنی متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کام کررہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’وفاق، سندھ سے اختیارات چھیننا چاہتا ہے‘
انھوں نے سوال کیا کہ آیا یہ پالیسی کا معاملہ ہے جبکہ حکومت کو اسے مشترکہ مفادات کی کونسل میں لے جانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر ایک معلوم کا مسئلہ ہے اور یہ نوٹیفکیشن اتھارٹیز کی آزادی اور خود مختاری کو متاثر نہیں کرے گا۔
وزیر قانون نے واضح کیا کہ آگر حکومت کو مذکورہ اتھارٹیز کے معملات میں مداخلت کرنا ہوتی تو وہ ایسا کیبنٹ ڈویژن کے ذریعے بھی کرسکتی ہے۔










لائیو ٹی وی