قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) کے سربراہ احسان غنی نے سانحہ کوئٹہ پر کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے ہر قسم کا تعاون کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کرنا نیٹکا کام نہیں ہے۔

گذشتہ ساڑھے تین سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس اہم ترین ادارے کے غیر فعال ہونے کا تاثر عام رہا ہے، جس کی ایک مثال کوئٹہ کمیشن کی حالیہ رپورٹ بھی ہے، جس میں حکومت سے نیکٹا کو فعال بنانے کی سفارش کی گئی، لیکن احسان غنی کا کہنا ہے رپورٹ کچھ ایسی خامیوں کا ذکر کیا گیا جو درحقیقت نیکٹا کے دائرہ کار میں ہی نہیں ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کالعدم تنظیموں کے ملک میں جلسے جلوس کرنے اور انتخابات لڑنے کی بات کی گئی، لیکن فورتھ شیڈول میں شامل افراد کی فہرست صوبوں کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے تو اس کے قانون پر عمل درآمد بھی صوبائی ذمہ داری ہے۔

احسان غنی نے کہا 'نیکٹا کے پاس جیسے ہی اطلاعات موصول ہوتی ہیں کہ فلاں جگہ پر کوئی کالعدم جماعت کے لوگ جلسہ کرنے جارہے ہیں تو ہم اس سے صوبے یا علاقے کے متعلقہ حکام کو آگاہ کرتے ہیں جو کہ اصل میں نیکٹا کا کام ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی عدالت اس حوالے سے کچھ پوچھنا چاہیے گی تو وہ تمام تفصیلات فراہم کریں گے۔

حال ہی میں اسلام آباد اور کراچی میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے جلسوں کے انعقاد پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کا بھی ایک پورا طریقہ کار موجود ہے، جس شخص کو جلسے کی اجازت دی جاتی ہے وہ حلف لیتا ہے کہ اُس کے جلسے میں وہ افراد شامل نہیں ہوں گے جن کا نام فورٹھ شیڈول میں شامل ہے، لیکن اس کی خلاف ورزی کی صورت میں اس شخص کے خلاف مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ فورٹھ شیڈول پر نیکٹا ہی وہ ادارہ ہے، جس نے آواز بلند کی اور تمام صوبائی حکومتوں سے کہا کہ وہ قانون پر عمل درِآمد کو یقینی بنائیں۔

دہشت گردی کے واقعات میں سب سے زیادہ ذمہ داری قبول کرنے والی جماعتوں کو کالعدم قرار دینے میں تاخیر پر پوچھے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے احسان غنی کا کہنا تھا کہ کسی بھی جماعت کو کالعدم قرار دینے کا ایک قانون ہے، جس میں ثبوت کا ہونا لازم ہے، لہذا کسی بھی جماعت کو کالعدم قرار دینے سے پہلے فوج یا انٹیلی جنس سے تصدیق کرنا اس قانون میں ضروری عمل ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی العالمی کو کالعدم قرار دینے میں تاخیر ہوئی، مگر ہم نے اسی سال یہ کام کیا اور جیسے ہی ہمارے پاس ثبوت آئے وہ وزراتِ داخلہ کے ساتھ شیئر کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح سے ایک صوبائی حکومت کی جانب سے ایک اور جماعت کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی گئی تھی، لیکن جب ہم نے رپورٹ طلب کی تو کہا گیا کہ ابھی اسے کالعدم قرار نہ دہیں، کیونکہ ان کی سرگرمیوں کو دیکھا جارہا ہے۔

کمیشن کی رپورٹ میں سول ہسپتال خود کش حملے کی پہلے سے اطلاعات کے بارے میں بات کرتے ہوئےاحسان غنی کا کہنا تھا کہ چونکہ صوبہ بلوچستان دہشت گردی کے حوالے سے سرِ فہرست ہے تو مختلف اوقات میں صوبائی حکومت کو اینٹلی جنس معاملات فراہم کی جاتی ہیں، لیکن سول ہسپتال خود کش حملے کی پہلے سے نہ تو کوئی انٹیلی جنس اطلاع تھی اور نہ کوئی شبہ تھا کہ دہشت گرد اس مقام کا انتخاب کریں گے۔

مزید پڑھیں: سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی'

نیکٹا میں بورڈ آف ڈائریکٹر کا اجلاس نہ ہونے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس بارے خود وزیراعظم نواز شریف ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں کہ ساڑے تین سال میں صرف ایک اجلاس کیوں ہوا، وہ صرف درخواست ہی کرسکتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ بہت سے معاملات اب بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں اور حال ہی میں عمارت جیسا بڑا مسئلہ بھی اب حل ہوگیا ہے، لیکن وہ انہیں اب بھی ایسے قابل افسران کی ضرورت ہے جو اسے مزید بہتر بنا سکیں اور بہتری ایک دم سے نہیں آسکتی، لہذا ہمیں کچھ وقت درکار ہوگا۔

خیال رہے کہ کوئٹہ کے سول ہسپتال دھماکے کے تحقیقاتی کمیشن کی حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہے، نیشنل سیکیورٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا جارہا جبکہ قومی لائحہ عمل کے اہداف کی مانیٹرنگ بھی نہیں کی جاتی۔

تحقیقاتی رپورٹ میں وزارت داخلہ کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سانحہ کوئٹہ پر وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی، وزارت داخلہ کے حکام وزیر داخلہ کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں، جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وزارت داخلہ کو اس کے کردار کا علم ہی نہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی، جبکہ ساڑھے 3 سال میں ادارے کا صرف ایک اجلاس بلایا گیا۔

اس رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی جس میں مرچ مصالحہ بھی موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’سانحہ کوئٹہ رپورٹ کے بعد وزیراعظم کو استعفے کی پیشکش کی‘

چوہدری نثار کے مطابق مذکورہ رپورٹ کو وزارتِ داخلہ کا موقف سنے بغیر یکطرفہ طور پر جاری کیا گیا۔

کمیشن کی رپورٹ کے بعد تفصیلی پریس کانفرس میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ رپورٹ دیکھنے کے بعد وہ وزیراعظم نواز شریف کے پاس گئے اور اپنا استعفیٰ پیش کیا جسے وزیراعظم نے قبول نہیں کیا۔

ان کے بقول 'رپورٹ میں صرف آفیشل نہیں بلکہ ذاتی الزامات بھی لگائے گئے، مثال کے طور مجھے اس بات سے بہت زیادہ رنج ہوا جب میں نے اخبارات میں پڑھا کہ وزیر داخلہ نے غلط بیانی کی‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں