• KHI: Sunny 27.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 21.1°C
  • KHI: Sunny 27.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 21.1°C

2016 : تمھاری یادیں بسی ہیں دل میں

شائع December 23, 2016 اپ ڈیٹ December 30, 2016

سال 2016 جہاں اپنے ساتھ بہت سی یادیں چھوڑے جارہا ہے، وہیں ان یادوں میں وہ تین ایسی شخصیات بھی ہیں جو اس سال ہم سے جدا ہوئیں، جنہیں کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔

ان تین اہم شخصیات میں معروف قوال امجد صابری، پاکستان کے عظیم انسان دوست سماجی کارکن اور ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کے علاوہ گلوکاری ترک کرکے کے مذہب کی جانب راغب ہونے والے مقبول نعت خواں جنید جمشید بھی شامل ہیں، جو ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

امجد صابری کو 22 جون 2016 میں کراچی علاقے لیاقت آباد میں نامعلوم مسلح افراد نے گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا، جبکہ اس واقعہ کے صرف 16 روز کے بعد یعنی 9 جولائی کو انسانیت کے خادم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی طویل علالت کے بعد 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، جبکہ سال کے آخری مہینے میں 7 دسمبر کو ملک کے ہر دل عزیز اور معروف نعت خواں جنید جمشید چترال سے اسلام آباد آنے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز(پی آئی اے) کے بدقسمت طیارے کے حادثے میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔

امجد صابری — ایک دلکش آواز

40 سالہ امجد صابری معروف قوال غلام فرید صابری کے صاحبزادے اور عصر حاضر میں قوالی کے شعبے میں صف اول کے قوال مانے جاتے تھے۔

مقبول صابری نے اپنے بھائی مرحول غلام فرید صابری کے ساتھ مل کر دنیا بھر میں قوالی متعارف کروائی اور عارفانہ کلام میں اپنا نمایاں مقام بنایا۔

امجد صابری قوالی کے شعبے میں ناصرف پاکستان، بلکہ اپنی دلکش آواز انفرادیت کی وجہ سے دنیا میں بھی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

اگرچہ امجد صابری کو اس دنیا سے گئے ابھی صرف 6 ماہ کا عرصہ ہی ہوا ہے، لیکن ان کی یادیں ہر گزرتے دن کے ساتھ ویسے ہی زندہ نظر آتی ہیں اور خود ان کے بیٹے مجدد صابری اپنے والد کا فن لے کر انُ کے سفر کو آگے لے جانے کیلئے پرعزم ہیں۔

مجدد صابری کہتے ہیں کہ وہ اب اپنے والد کے سفر کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں تاکہ جو پہچان اُن امجد صابری کی تھی وہ اُسی طرح سے زندہ رہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے مجدد کا کہنا تھا کہ 'یہ بوجھ اتنا آسان نہیں، کیونکہ میرے والد کا بہت نام تھا، لہذا مجھے ان کے نقشے قدم پر چلنے کے لیے دعاؤں کی ضرورت ہے'۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت وہ تعلیم کے ساتھ اس پیشہ پر بھی مہارت حاصل کررہے ہیں اور ہفتے میں دو دن کلاسز بھی لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کوشش کررہا ہوں اپنے والد جیسا نہیں تو کچھ کم ہی بن سکوں جس سے ان کی پہچان زندہ رکھ سکوں'.

عبدالستار ایدھی — ایک انسان دوست شخص

امجد صابری کے بعد 2016 میں جو اہم شخصیت ہم سے جدا ہوئی، وہ ملک کے معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی تھے، جن کی انسانیت کیلئے کی جانے والی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

عبدالستار ایدھی نے معاشرے کے نادار لوگوں کی خدمت کی ایک ایسی فصیل قائم کی جس کو عبور کرنا ایک چیلنج ہوگا۔

دنیا میں کئی شخصیات نے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دیں ہیں، لیکن جو کام ایدھی نے تن تنہا شروع کیا تھا، اس کو آخری سانس تک چلاتے رہے اور انھوں نے معاشرے کی خدمت کی نئی مثال قائم کی۔

ایدھی نے پاکستان کا سب سے بڑی نجی ویلفیئر ادارہ قائم کیا اور ان کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس گردانی جاتی ہے، جو پاکستان کے ہر شہر میں لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے۔

ایدھی کے انتقال کے بعد اب ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اور صاحبزادے فیصل ایدھی اس مشن کو آگے لے کر جارہے ہیں۔

پروگرام میں موجود فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ والد کے جانے کے بعد ان کی یاد بہت آتی ہے، لیکن ساتھ ہی ہم ان کاموں میں مصروف ہیں جو کہ عبدالستار ایدھی چاہتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ 'عبدالستار ایدھی جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اور ایسی عظیم شخصیات کا پھر سے پیدا ہونا مشکل ہے'۔

ایدھی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'میرے والد سے میری ایک نظریاتی دوستی تھی اور یہ رشتہ والد سے بڑھ کر تھا، لیکن کبھی اس کا ذکر ہی نہیں کیا'۔

فیصل ایدھی نے بتایا کہ ان کے والد ہمیشہ انسانیت اور اس سے جڑے نظریات پر ہی بحث کیا کرتے تھے، جس میں ساری زندگی گزر گئی'۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'ایدھی صاحب کے جانے سے میری والدہ کافی حد تک ٹوٹ چکی ہیں اور ہر وقت انہیں کی یاد آتی ہے، لیکن چونکہ ہم نے کاموں میں بھی مصروف ہیں، کیونکہ یہ مشن اب ہم نے ہی آگے لے کر چلنا ہے'۔

جنید جمشید — پاکستان کا دل

ابھی ان دو بڑی شخصیات کے غم سے قوم باہر نہیں آئی تھی کہ حال ہی میں مقبول نعت خواں اور ماضی میں پاپ میوزک کے حوالے سے شہرت رکھنے والے جنید جمشید اپنی اہلیہ نیہا جنید کے ہمراہ چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔

یہ سانحہ بھی ہر اُس پاکستانی کے لیے رنج و دکھ سے کم نہ تھا، جو جنید جمشید سے محبت کرتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ حادثے کے بعد بہت سے لوگ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔

شوبز کی چکا چوند کو خیرباد کہہ کر اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کر دینے والے جنید جمشید کی اس ناگہانی موت نے ناصرف پاکستان، بلکہ دنیا بھر میں ان کے پرستاروں کو سوگوار کردیا۔

جنید جمشید ایک ایسے اسٹار تھے جنہوں نے پاپ میوزک سے لے کر نعت خوانی تک اپنی آواز اور شخصیت سے ہر ایک کے دل میں گھر کر رکھا تھا۔

جنید جمشید ویسے تو ایک انجینئر تھے، مگر جب انھوں نے اپنے کیریئر کا باقائدہ آغاز کیا تو میوزک کے شوق نے انہیں شوبز کی رنگارنگی میں اپنا مقدر چمکانے کی راہ دکھائی اور پھر یوں ایک عرصے تک وہ اپنے گٹار اور مدھر سروں کی وجہ سے نوجوانوں کے دلوں پر راج کرتے رہے۔

جوانی میں انہیں شہرت اس وقت ملی جب انھوں نے پاپ موسیقی گروپ وائٹل سائنز میں شمولیت اختیار کی اور یوں سن 1987 میں پاکستان کے لیے گائے جانے والے ملی نغمے 'دل دل پاکستان' کراچی سے خیبر تک ہر ایک کی زبان پر آگیا۔

جنید جمشید نے گلوکاری کے شعبے سے آغاز کرکے پاکستان سمیت دنیا بھر میں شہرت حاصل کی، تاہم بعد میں ان کا رجحان مذہب کی جانب ہوگیا اور وہ تبلیغی جماعت کا حصہ بن گئے اور گلوکاری کو ترک کردیا۔

مذہب پر عمل کے ساتھ ساتھ انہوں نے متعدد حمد و نعت پڑھیں، ان کی پڑھی ہوئی ہر حمد اور نعت کو بھی بھر پور پذیرائی ملی۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025