انسان اور برفانی تیندوے میں بڑھتا ہوا تنازع

25 دسمبر 2016
انتہائی خطرے کا شکار برفانی تیندوا ہمالیہ کی پریت کہلاتا ہے — فوٹو:  رائٹرز
انتہائی خطرے کا شکار برفانی تیندوا ہمالیہ کی پریت کہلاتا ہے — فوٹو: رائٹرز

ہمالیہ کی پریت کہلانے والے انتہائی خطرے کا شکار برفانی تیندوا کا موسمی تبدیلی کے سبب انسانوں سے تنازع بڑھ رہا ہے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے بلند و بالا برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ برفانی تیندوا کی قدرتی آماجگاہیں ہیں۔

وادی کیلاش کی رمبور ویلی ان بلند و بالا پہاڑوں کے قریب واقع ہے، کئی سال پہلے تک ان برف پوش پہاڑوں پر بسیر ا کیے ہوئے برفانی تیندوے کا مقامی آبادیوں کے ساتھ کوئی تنازع نہیں تھا مگر اب صورتحال بدل چکی ہے، برفانی تیندوے اکثرو بیشتر مال مویشی پر حملے کرتے ہیں۔

— فوٹو:  رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

رمبور ویلی کے 65 سالہ عبدالمتین نے بتایا کہ استوئی کی چراہ گاہ میں برفانی تیندوا نے ان کے 25 بکرے چھیڑ پھاڑ دیئے تھے، 45 سالہ پجگی خان کے 15 بکرے گنغاوت کی چراہ گاہ پر برفانی تیندوا کا شکار ہوئے۔

علاقے کے نمبردار وزیر زادہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ 10 سال سے برفانی تیندوں کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے، مقامی لوگوں میں برفانی تیندوا کے خلاف غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس کے مال مویشی کا برفانی تیندوا نے نقصاں نہ کیا ہوا او ر اس نقصان کا کوئی ازالہ بھی نہیں ہوتا۔

مقامی ذرائع کے مطابق رمبور ویلی کے لوگ گرمیوں کے موسم میں 4، 5 گھنٹے کا پیدل سفر کرکے بالائی علاقوں چینیسر، گنوویٹ اور دیگر میں مال مویشی کے ہمراہ نقل مکانی کرتے ہیں۔

— فوٹو:  رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

پجگی خان کاخیال تھا کہ برف کی کمی کی وجہ سے برفانی تیندوا انسانی جان ومال کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 20 سال پہلے تک برفباری دسمبر، جنوری کے ماہ میں شروع ہوجاتی تھی، جو اب فروری کے ماہ تک محدود ہوچکی ہے اور کبھی کبھار مارچ میں بھی ہوتی ہے۔

عبدالمتین کا کہنا تھا کہ 20 سال پہلے تک ہم مئی کے ماہ میں اپنے مال مویشی لیکر بالائی علاقوں میں جاتے تھے اور اکتوبر تک ہی بالائی علاقوں میں ٹھہر پاتے تھے، مگر اب برف کم ہونے کی وجہ اپریل کے ماہ میں جاتے ہیں اور نومبر تک بالائی علاقوں ہی میں رکتے ہیں۔

— فوٹو:  رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر پاکستان،گلگت بلتستان کے سنیئر کوارڈنیٹر سعید عباس نے بتایا کہ پہلے مال مویشی کے لیے روایتی چراہ گاہوں میں مئی سے لے کر اکتوبر تک کا سیزن کافی ہوتا تھا، اس دوران مقامی آبادیاں سردیوں کے لیے بھی چارہ اکھٹا کرلیتی تھیں، مگر اب چارہ کم دستیاب ہوتا ہے ۔ مقامی آبادیاں مجبوری کے عالم میں مارچ سے لیکر نومبر تک بالائی علاقوں میں اپنا وقت گزارتی ہیں۔

علاقہ مکینوں کے مطابق آبادیاں چارے کی تلاش میں اپنا دائرہ کار نئے علاقوں تک بڑھا کر تیندووں کی آماجگاہوں میں مداخلت کررہی ہیں۔

سعید عباس نے بتایا کہ ان کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہمالیہ اور قراقرم رینج میں برف والے علاقے کم از کم ایک کلو میٹر تک کم ہونے سے برفانی تیندوا کی آماجگاہیں بھی محدود ہوئیں ہیں اور اس کے قدرتی خوراک کے مواقع بھی کم ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ برفانی تیندوا بھوک سے متاثر ہوکر مال مویشیوں پر حملے کررہا ہے۔

سعید عباس کی تیارہ کردہ سروے رپورٹ کے مطابق برفانی تیندوا کے مال مویشیوں پر حملے میں گزشتہ 10 سال کے دوران 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

— فوٹو:  رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

ان کا کہنا تھا کہ حملوں میں اضافہ انسانوں اور برفانی تیندوا دونوں کے لیے خطرناک ہیں۔

سعید عباس نے بتایا کہ برفانی تیندوا 3ہزار 8سو میٹر کی بلندی پر تنہا رہنا پسند کرتا ہے، جو بلا ضرورت اور مداخلت کے بغیر انسانوں یا ان کے مال مویشیوں پر حملے نہیں کرتا۔

قدرت-نیچر کے چیرمین میجر(ر)عابد حسین کا کہنا تھا کہ مقامی آبادیوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے، جس سے انسانوں کا برفانی تیندوا کے خلاف غم وغصہ کم ہوگا، اسی طرح مقامی آبادیوں کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کی بھی ضرورت ہے، جس میں نئے روزگار کے مواقع بھی شامل ہیں۔

— فوٹو:  رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

ان کا کہنا تھا کہ آبادیوں کو بالائی علاقوں میں بڑھنے سے روکنے کی منصوبہ بندی کے علاوہ برفانی تیندووں کی قدرتی خوراک کے ذرائع اور آماجگاہوں کو محفوظ کرنے کے اقدامات پر توجہ دینا ہوگی، جس کے لیے ہمالیہ اور قراقرم کے علاقوں میں نئے محفوظ علاقوں کا اضافہ کرنا چاہیے۔

وائلڈ لائف چترال اور گلگت بلستان کے مطابق برفانی تیندوا کے مال مویشیوں پر حملوں میں اضافے کی شکایات موجود ہیں۔

سعید عباس نے بتایا کہ پاکستان کے ہمالیہ اور قراقرم کے علاقوں میں 200 سے لیکر 400 تک برفانی تیندوے ہوسکتے ہیں اور دنیا میں یہ تعداد 4000 سے 6000 ہے ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں