ماضی میں مفاہمتی سیاست کے جادوگر رہنے والے آصف علی زرداری اپنی خود ساختہ جلا وطنی ترک کر کے سیاست میں پانسہ پلٹنے کی امید لیے واپس لوٹ آئے ہیں۔

اپنے بیٹے کے ساتھ قومی اسمبلی میں واپس آنے کے فیصلے نے ان کے حامیوں کو بھی حیرانی ڈال دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں ان کی موجودگی سے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے مگر اس سے ملکی سیاست کے طول و عرض میں زیادہ تبدیل رونما نہیں ہوگی۔

کئی لوگوں کے نزدیک یہ اقدام پارٹی کے کم ہوتے مورال کو سہارا دینے کے لیے ایک شاندار حکمت عملی ہے۔ مگر ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ آیا مرکزی منظرنامے میں ان کی واپسی اگلے انتخابات میں پی پی پی کو اپنی کھوئی ہوئی سیاسی حیثیت دوبارہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوگی بھی یا نہیں۔ پارلیمانی سیاست میں ان کی واپسی سے ان کا سامانِ ماضی پس منظر میں گم ہوتا دکھائی نہیں پڑتا۔

اب جبکہ یہ بلاول کے لیے یہ پارلیمنٹ میں پہلا تجربہ ہوگا اس لیے وہ ایک بار پھر اپنے والد کے پیچھے ایک چھوٹا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوں گے۔ مگر یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ایسے وقت میں جب زرداری کے قریبی ساتھیوں کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، ان کی پارلیمنٹ میں آمد کس طرح ان کو مشکل صورتحال سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

مزید پڑھیے: زرداری کی 18 ماہ بعد وطن واپسی، جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیا

قریب 18 ماہ قبل جب زرداری ملک بدر ہو رہے تھے وہ وقت ان کے لیے کچھ خوشگوار نہیں تھا، وفاقی تحقیقاتی اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو اپنے چند قریبی ساتھیوں کا تعاقب کرتا دیکھ کر شاید انہیں اپنے لیے بھی خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔

گزشتہ ہفتے ان کی پارٹی اور حکومت سندھ نے ان کا کسی ’ہیرو‘ جیسا استقبال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، مگر اس بات میں حیرانی نہیں کہ ایئرپورٹ پر بسیں بھر کر لائے گئے حامیوں میں بے ساختہ خوشی نظر نہیں آئی۔

شاید زرداری نے سوچا تھا کہ وطن واپسی کے اعلان سے ان پر سے دباؤ ہٹ جائے گا۔ مگر ان کی آمد سے چند گھنٹوں قبل ان کے چند قریبی ساتھیوں میں سے ایک کے دفتر پر چھاپہ لگنے سے یوں لگتا ہے کہ ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہو۔ کیا یہ محض ایک اتفاق تھا یا سابق صدر کو ایک پیغام؟

یہ کافی حد تک واضح ہے کہ زرداری اب بھی پوری طرح سے مشکل وقت سے آزاد نہیں ہوئے ہیں اور گزشتہ ہفتے کا چھاپہ ان کے قریبی ساتھیوں پر ہونے والے کریک ڈاؤن سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کا تھا۔ اس بار ہدف انور مجید تھے جو زرداری کے کاروباری معاملات سنبھالتے ہیں۔

انور مجید گزشتہ سال زرداری کی بیرون ملک روانگی سے بھی پہلے ملک سے روانہ ہو چکے تھے۔ رینجرز نے ان کے دفاتر سے بڑی تعداد میں چھپایا گیا اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا، اور سننے میں آیا کہ اس چھاپے دوران گرفتار ہونے والے افراد کے خلاف انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پیغام کافی صاف اور واضح تھا۔ مگر پی پی پی کے محتاط رہنما صبرو تحمل کا دامن تھامے رہے اور اس اقدام پر کسی قسم کا کوئی شدید رد عمل نہیں دیا۔

زرداری نے اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ پر انگلی اٹھائی، مگر وہ یہ ضرور جانتے ہوں گے کہ احکامات درحقیقت آئے کہاں سے۔ دیگر وجوہات کے علاوہ آئی جی سندھ کو جبری چھٹی پر بھیجنے کے حکومت سندھ کے فیصلے سے رینجرز کے ساتھ ٹکراؤ میں شدت آئی۔

مزید پڑھیے: آصف زرداری کا 'بڑا سرپرائز' حقیقت میں ہے کیا؟

یہ تو صاف ہے کہ زرداری نے اپنے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر جو رد عمل دیا تھا، اس بار وہ ایسا نہیں کریں گے۔ واپس آنے پر فوجی قیادت کی تعریفوں کے پل باندھنے سے یہ صاف ظاہر ہے کہ زرداری نے کسی قسم کے تنازع کی راہ اختیار کرنے کے بجائے محتاط راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کا کنٹرول تقریباً مکمل طور پر سندھ رینجرز کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے ان کے آپشن بھی محدود ہیں۔

اس بات کے بھی واضح اشارے موجود ہیں کہ فوجی قیادت میں حالیہ تبدیلی نے کراچی میں آپریشن کا رخ تبدیل نہیں کیا ہے۔ پی پی پی رینجرز کو ایم کیو ایم اور دیگر گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارات منتقل کر دینے سے کافی حد تک اپنے اختیارات کھو بیٹھی ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے کہ آیا گزشتہ چھاپے کے بعد حکومت سندھ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگی یا نہیں۔ مگر جس طرح ہم نے ماضی میں دیکھا، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

حسب توقع، اس واقعے کے بعد پی پی پی اور وفاقی حکومت کے درمیان لفظوں کی شدید جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ چند ایسے بھی اشارے ملے ہیں جن کے مطابق پی پی پی حکومت مخالف حزبِ اختلاف اتحاد تشکیل دے رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے زرداری کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں پھر چاہے مذہبی جماعتوں کی منت سماجت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔

اس کی ایک واضح مثال ان کا جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے ساتھ فون پر گفتگو کرنا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ انسداد جبری تبدیلیءِ مذہب کے قانون سے دستبردار ہونے پر متفق ہیں جو حالیہ دنوں میں ہی سندھ اسمبلی میں باہمی رضامندی کے ساتھ منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کا مقصد کم عمر ہندو لڑکیوں کی جبری مذہبی تبدیلی اور مسلمان مردوں کے ساتھ شادی کی روک تھام کرنا تھا۔ یہ مسئلہ صوبے میں ایک بڑے اسکینڈل کا باعث بن چکا ہے۔

مگر یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ کیا پارٹی حکومت مخالف محاذ میں خود کو پی ٹی آئی کے ساتھ صفوں میں کھڑا کرے گی؟ اب جبکہ بلاول کی جانب سے چار نکاتی مطالبے کے لیے دی جانے والی ڈیڈ لائن بھی گزر چکی ہے، مگر پی پی پی سڑکوں پر نکلتے ہوئے نظر نہیں آ رہی۔ پارٹی کے پاس سندھ کے علاوہ پنجاب اور کسی دوسرے صوبے میں اسٹریٹ پاور نہیں ہے جس کی مدد سے وہ اپنی پوزیشن بہتر کر چکی نواز حکومت کو صحیح معنوں میں چیلنج دے سکے۔

گزشتہ پورے سال کے دوران زرداری نے پیچھے ہٹ کر بلاول کو پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے دی۔ یقیناً، پارٹی کو ایک عوامی چہرہ درکار ہے، اور زرداری خود کبھی کارکنوں کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ مگر پھر بھی سارے احکامات دبئی میں موجود زرداری ہاؤس سے ہی جاری ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ نئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی باس سے ہدایات لینے بار بار دبئی کی پرواز پکڑنی پڑتی تھی۔ درحقیقت دبئی سندھ کابینہ کے چند ممبران کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بھی بن چکی ہے، ان ممبران میں شرجیل میمن اور اویس مظفر (ٹپی) شامل ہیں جو کریک ڈاؤن سے پہلے ہی وہاں کوچ کر گئے تھے۔

زرداری کے لوٹنے سے بلاول ایک بار پھر پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ پارٹی نے عوامی مفاد سے ہٹ ایک بار پھر اپنا رخ مصالحتی سیاست کی طرف کر دیا ہے۔

یہ واضح ہے کہ مسلم لیگ کے حوالے سے زرداری کی مفاہمتی پالسی اب اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے۔ حالانکہ مسلم لیگ ن اب بھی پی پی پی کو پی ٹی آئی کے ساتھ صف بندی سے باز رکھنا چاہتی ہے کیونکہ نواز شریف اور ان کا خاندان کو پانامہ اسکینڈل سے پوری طرح سے آزاد نہیں ہوئے ہیں۔

مگر حکومت پی پی پی کو خوش کرنے کے لیے کوئی بھی خاطر خواہ اقدامات کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہی ہے۔ اس لیے نواز حکومت کا بلاول کے چار نکات پر دھیان نہ دینا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے، جس نے پی پی پی کو چند آپشن تک ہی محدود کر دیا ہے۔

پارٹی کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے مصالحتی سیاست کی راہ اپنانے سے زیادہ دیگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ یقینی طور پر کوئی سیاسی گیم چینجر ثابت نہیں ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 دسمبر 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں