'رخصت' کے بعد آئی جی سندھ کی واپسی، اپیکس اجلاس میں شرکت

اپ ڈیٹ 02 جنوری 2017
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس کا منظر—۔ڈان نیوز
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے اجلاس کا منظر—۔ڈان نیوز

کراچی: انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے 'رخصت' کے بعد دوبارہ ذمے داریاں سنبھال لیں اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت میں ہونے والے ایپکس کمیٹی کے 18ویں اجلاس میں شرکت کی۔

یاد رہے کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ 19 دسمبر کو 'رخصت' پر چلے گئے تھے، میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی جی سندھ کو اس لیے 'جبری رخصت' پر بھیجا گیا کیوں کہ سندھ حکومت کے پولیس کانسٹیبلز کی بھرتیوں اور پولیس افسران کی معطلی کے معاملے پر ان سے اختلافات تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو ہٹانا چاہتی ہے، لیکن وفاقی حکومت اس کے خلاف ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ حکومت نے آئی جی پولیس کو 'رخصت' پر بھیج دیا

تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ آئی جی سندھ 15 دن کی چھٹی پر گئے تھے اور انھوں نے خود اس کی درخواست دی تھی۔

بعدازاں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا تھا۔

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ 'آئی جی سندھ بڑے سکون کے ساتھ اجلاس میں بیٹھے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ مجھ پر سندھ حکومت کا کوئی دباؤ نہیں'۔

اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ سندھ حکومت نے وزارت داخلہ سے 94 مدارس پر پابندی کی درخواست کی ہے۔

سندھ میں 10ہزار33 مدارس میں سے7ہزار724 فعال ہیں ان مدارس میں 818غیرملکیوں سمیت 5لاکھ،47ہزار695 طلبا زیرتعلیم ہیں۔

اسٹریٹ کرائمز کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم

ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو اسٹریٹ کرائمز کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ 'مجھے اسٹریٹ کرائم فری کراچی چاہیئے'۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی کے عوام کو ہر جرم کی شکایت پولیس اور رینجرز کی ہیلپ لائن پر درج کروانے کی بھی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ کی جیلوں میں قید 300عسکریت پسندوں کی ذہنی تربیت کا فیصلہ

اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروانے میں مکمل تعاون نہیں کر رہی، ٹی وی پر ابھی تک دہشت گردوں کی خبریں چلتی ہیں، انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی روک تھام بھی نہیں ہوسکی اور کالعدم تنظیموں کے لوگ ابھی تک کھلے عام جلسے کر رہے ہیں، لیکن وفاقی حکومت اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کر رہی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت کو خط لکھا جائے کہ غیر قانونی اسلحہ بنانے کی فیکٹریوں اور دکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے، کیونکہ سندھ میں اب تک جتنا بھی اسلحہ پکڑا گیا، اس کا 40 فیصد مقامی طور پر تیار کیا گیا تھا۔

ہوم سیکریٹری کی بریفنگ

ہوم سیکریٹری سندھ شکیل منگنیجو نے اجلاس کو بتایا کہ:

  • سندھ سے گرفتار 16 دہشت گردوں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
  • فوجی عدالتوں کی جانب سے 16 کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے اور مزید 19 مقدمات زیر سماعت ہیں۔
  • سندھ کی لیگل کمیٹی نے 9 مزید مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجنے کی منظوری دے دی ہے۔
  • سندھ حکومت کی سفارش پر 62 کالعدم تنظیموں کے نام فرسٹ شیڈول میں ڈالے گئے۔
  • سندھ میں 92646 افغان شہریوں کی رجسٹریشن ہوئی۔
  • سندھ نے 94 مدارس کی فہرست وزارت داخلہ کو بھیجی ہے، ان کو بھی فرسٹ شیڈول میں ڈالا جائے گا۔
  • 581 مختلف افراد کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا۔

کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ اور ڈی جی رینجرز سندھ محمد سعید نے پہلی مرتبہ اجلاس میں شرکت کی، اس موقع پر سینئر وزیر نثار کھوڑو، چیف سیکریٹری رضوان میمن، مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو، گورنر سندھ کے نمائندے صالح فاروقی، مشیر قانون مرتضٰی وہاب، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی، ہوم سیکریٹری شکیل منگنیجو اور دیگر موجود تھے۔

'وفاق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا'

اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ کراچی میں جرائم میں واضح کمی آئی ہے اور تمام لوگوں نے اس سلسلے میں بے پناہ محنت کی اورقربانیاں دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں افواہیں پھیلائی گئیں، لیکن آج کے اجلاس کے بعد اداروں کے درمیان لڑائی کا تاثر ختم ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ اجلاس کے دوران ان تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ وفاق کراچی آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا اور جہاں کہیں بھی کمزوریاں نظر آرہی ہیں، وہ سب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ مدارس کی نگرانی کا کام وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، پیمرا کی نگرانی بھی حکومت کی ذمہ داری اور پیمرا کے حوالے سے طے ہوا تھا کہ دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر نہیں پیش کیا جائے گا، لیکن اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رینجرز اور پولیس نے کراچی سے بہت اسلحہ پکڑا لیکن شہر میں باہر سے آنے والے غیر قانونی اسلحے کو کنٹرول کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے، جو وہ پوری نہیں کر رہا۔

اس موقع پر انھوں نے وفاقی وزیر داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار کہاں گئے؟

مولا بخش چانڈیو نے بتایا کہ سندھ حکومت نے اسٹریٹ کرائم کے مسئلے پر خاص توجہ دی ہے اور وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو ٹارگٹ دیا ہے کہ فوری طور پر ان پر کنٹرول کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں