لندن: برطانوی حکومت نے ان پر ہونے والی تنقید کو مسترد کردیا ہے جس میں کہا گیا کہ ان کی جانب سے غیر ملکی امداد کے ایک پروگرام، جس کا مقصد پاکستان کے غریب افراد کیلئے رقم کی فراہمی کی ایک اسکیم متعارف کرانا تھا، نہ صرف برطانیہ کے ٹیکس دہندگان پر بوجھ ہے بلکہ اس میں مبینہ طور پر کرپشن بھی ہوئی ہے۔

برطانوی حکام کی جانب سے مذکورہ تردید ان کے ایک مقامی اخبار ڈیلی میل کی جانب سے شائع کی جانے والی خبر کے شہ سرخیوں کی زینت بن جانے کے بعد کی گئی، جس میں کہا گیا تھا کہ 'جب آپ سوچ نہیں سکتے کہ کچھ برا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ کا کیش لفافے کے ذریعے تقسیم اور اے ٹی یم کارڈ پیسوں سے بھرے ہوئے ہیں'۔

ڈیلی میل نے پاکستان کے اہم شہر پشاور میں قائم اے ٹی ایم پر لگی لمبی قطار کی ایک تصویر کے ساتھ رپورٹ کیا کہ 'تقریبا 235000 خاندانوں کو ہر 3 ماہ میں ایک مرتبہ رقم فراہم کی جاتی ہے تاکہ ان کی آمدنی میں اضافہ ہو'۔

اخبار کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ وہ رقم نکلوارہے ہیں جو برطانیہ کی جانب سے فراہم کی گئی ہے۔

برطانیہ کے ایک اور اخبار نے اس رپورٹ کو شائع کیا اور سوال اٹھایا کہ برطانیہ اس قدر کیش منتقل کیوں کررہا ہے اور اس مسئلے کی جانب توجہ بھی دلائی کہ کیا یہ نظام کرپشن کی حوصلہ افزائی کررہا ہے؟

خیال رہے کہ برطانوی اخبار نے جس رقم کی منتقلی کی جانب اشارہ کیا ہے وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت کی جاتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ کا محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی اس پروگرام کیلئے سالانہ 200 ملین پاؤنڈ فراہم کرتا ہے۔

امداد کا دفاع کرتے ہوئے برطانیہ کی حکومت نے کہا کہ بی آئی ایس پی پروگرام 52 لاکھ غریب افراد کو خوراک، صحت، کپڑے اور اسکول تک رسائی دیتا ہیں، غیر ملکی امداد کے حوالے سے پاکستان برطانیہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔

برطانیہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی بیشتر رقم پنجاب میں تعلیم پر خرچ کی جاتی ہے تاہم ملک کے غریب لوگوں کی براہ راست امداد بھی کی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کے کنزرویٹو رکن نیگال ایوانس، جو بین الاقوامی ترقی کی منتخب کمیٹی کے ایک بااثر رکن بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ رقم کی منتقلی 'واضح طور پر فراڈ ہوسکتا' ہے۔

بی آئی ایس پی سے فائدہ حاصل کرنے والے متعدد افراد پوسٹ آفس اور دیگر کیش کارڈز سے رقم حاصل کرتے ہیں، یہ وہ افراد ہیں جن کو اے ٹی ایم تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

ڈیلی میل نے پشاور خیبر بازار کے ثناء اللہ خان کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انھوں نے مذکورہ کارڈ ایک کونسلر کو رشوت دے کر حاصل کیا جو اس وقت اسکیم رجسٹر کررہا تھا۔

اس نے بتایا کہ 'میں نے رقم ادا کی اور میرا کارڈ بن گیا'۔

تاہم غیر ملکی امداد کے حوالے سے برطانوی حکومت کے عہدیداروں نے زور دیا کہ فراڈ کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر عدم برداشت کا ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ کرپشن کی حوصلہ افزائی کرنا تو درکنار، کیش کی منتقلی میں رقم کے کسی اور کو منتقل ہونے کا خطرہ بھی موجود نہیں ہے۔

لیکن نیگال ایوانس کا کہنا تھا کہ کیش منتقلی صرف اور صرف مختصر مدت کیلئے کسی ہنگامی صورت حال میں ہی ہوتی ہے: 'ہر وہ چیز جس میں رقم شامل ہو اس کی مناسب طریقے سے چھان بین کی جانی چاہیے اور اس میں فراڈ کا عنصر موجود ہوسکتا ہے جب رقم براہ راست آپ کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہوں'۔

برطانوی حکام نے ملک میں فنگر پرنٹ کی تصدیق کیلئے بائیومیڑک نظام متعارف کرانے پر پاکستان کی تعریف کی جس کے ذریعے، ان کے مطابق، برطانوی ٹیکس دہندگان اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ان کی فراہم کردہ رقم درست مقام پر پہنچ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 4 سال سے دنیا بھر میں برطانیہ کی جانب سے رقم منتقلی کے نظام کے تحت 89 لاکھ افراد کی مدد کی جارہی ہے، تاکہ غریب اپنی ضروریات زندگی کی اشیا خرید سکیں جس میں صاف پانی، صحت مند خوراک، کپڑے اور صحت کی دیگر سہولیات شامل ہیں۔

یہ رپورٹ 4 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں