انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ میانمار حکومت ریاست رکھائن کے مسلم اکثریتی علاقے میں شہریوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی حکومت کی جانب سے تشکیل دیئے گئے کمیشن نے اپنے نتائج جاری کیے جس میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے شہریوں سے بدسلوکی کے تمام الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

میانمار پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو مارنے پیٹنے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد انتظامیہ اب بھی تفتیش میں مصروف ہے۔

شمالی رکھائن میں اہلکاروں کی تعیناتی اقلیتی روہنگیا افراد سے تعلق رکھنے والے باغیوں کی جانب سے 9 اکتوبر کو سرحد پر ہونے والے حملے اور 9 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد سامنے آئی تھی۔

واضح رہے کہ اب تک اس ریاست میں 86 افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 34 ہزار کے قریب افراد سرحد پار کرکے میانمار سے بنگلادیش جاچکے ہیں۔

روہنگیا پناہ گزین سیکیورٹی فورسز پر پھانسی دینے، گرفتاریوں، ریپ اور ان کے گھروں کو جلائے جانے کا الزام عائد کرتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے اسے حملہ آوروں کی تلاش میں کیا جانے والا 'کلیئرنس آپریشن' قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کے استحصال کی آزاد تحقیق کا مطالبہ

میانمار حکومت کی جانب سے روہنگیا افراد پر کیے جانے والے مظالم کو دو ٹوک انداز میں مسترد کیا جاتا رہا ہے جبکہ شمالی رکھائن کے علاقوں میں خود مختار صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو جانے سے بھی روکا جاتا رہا ہے۔

بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے آنگ سان سوچی نے خصوصی کمیشن کو حملوں کی تفتیش اور بدسلوکی کے الزامات کی تحقیق کا حکم دیا تھا۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مونگتاؤ خطے میں بسنے والی بنگالی آبادی، مولویوں کی تعداد میں ہونے والا مسلسل اضافہ، مساجد اور مذہبی مقامات کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ علاقے میں قتل عام کا کوئی کیس نہیں اور مذہبی ظلم و ستم نہیں ہورہا۔

میانمار میں رہنے والے کئی لوگ روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی تصور کرتے ہیں اور انہیں بنگلادیش سے زبردستی میانمار میں داخل ہونے والے افراد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

تفتیشی پینل کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں اس قدر شواہد حاصل نہیں ہوسکے ہیں کہ وہ فوجیوں پر ریپ کے الزامات کے خلاف قانونی کارروائی کرسکیں۔

مزید پڑھیں: میانمار سے فرار ہو کر ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش آمد

رپورٹ میں کہا گیا کہ غذائی قلت کے بھی کوئی کیس علاقے میں سامنے نہیں آسکے جس کی وجہ یہاں موجود زراعت اور مچھلی کی افزائش کے لیے میسر ماحول ہے۔

نیویارک کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے نائب ڈائریکٹر فل رابرٹ سن کا اس رپورٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پینل کی رپورٹ میانمار حکومت کے 'وائٹ واش میکانزم' کی مانند معلوم ہوتی ہے جس کا ہمیں خدشہ تھا اور اس کی اہم وجہ پینل کے نائب صدر ہیں جو کہ سابق لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔

اپنی ای میل میں فل رابرٹ سن کا مزید کہنا تھا کہ 'حیران کن' بات ہے کہ علاقے میں مساجد کی موجودگی سے اس بات کا فیصلہ کرلیا گیا کہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم نہیں ہورہے۔

مہماتی گروپ فورٹیفائی رائٹس کی بنیاد رکھنے والے میتھیو اسمتھ کہتے ہیں کہ کمیشن کی رپورٹ اور تحقیق کرنے والوں کی جانب سے بنگلادیش فرار ہونے والے اور شمالی رکھائن میں موجود لوگوں سے کیے گئے انٹرویو میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔

میتھیو اسمتھ کا اپنی ای میل میں مزید کہنا تھا کہ فوج کی جانب سے ظالمانہ جرائم کیے جارہے ہیں جبکہ کمیشن اس پر وائٹ واش کی کوشش کررہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں