قدرت میں سکوں محال ہے، تبدل و تغیر زمان کا خاصہ ہے، یہ ہر دم ارتقائی مراحل طے کرتا ہے اور ہمیشہ ایک نئے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔

انسانی تاریخ میں انسان کے موجودہ حالت میں پائے جانے کے آثار 6 لاکھ سال پرانے ہیں، جو وقتاً فوقتاً اس ارتقاء کے مرحلہ سے گزرا ہے۔ عضویاتی ارتقاء کے ساتھ ساتھ معاشرتی ارتقاء بھی اپنے مرحلہ وار پیمانے طے کرتے ہوئے موجودہ حالت میں موجود ہے۔

مذہب، معاشرت، اور معاشیات سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کا رخ اب سب سے مختلف ہے۔ نظریات بھی اب جدید سے جدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ فلسفہ، ادب، سائنس سمیت تمام علوم کی ہیئت میں روز بروز ایک نیا رنگ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

افلاطون کی تاریخی اہمیت تو مسلّم ہے، مگر اس کے نظریات کا اطلاق محال ہے۔ ارسطو کی قابلِ ستائش شخصیت کے باوجود اس کا کوئی نظریہ موجودہ دور کی مناسبت سے نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔ دمقراط، ابن سینا، سینٹ آگسٹین سمیت ماضی کے دوسرے تمام فلاسفہ کو کئی وجوہات کی بنا پر قابلِ تقلید نہیں سمجھا جاتا۔

مذاہب کا بھی کچھ یہی حال ہے، نہ آج زرتشت مذہب کو وہ عروج حاصل ہے نہ بدھ مت کو۔ نہ ہندومت میں کشش ہے نا ہی جین مت میں۔ مانی مذہب کا آج کوئی نام لیوا نہیں اور نہ ہی دوسرے یورپی مذاہب کا۔ وحدانی مذاہب میں بھی وہ روح نہیں رہی۔

نئے سے نئے کی جستجو بڑھ چکی ہے۔ عورت اور مرد کے حقوق کی تفریق نہیں رہی۔ آزادی اب نعرہ نہیں حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ آپ علی الاعلان مذہبی طریق پر تنقید کرسکتے ہیں، ثقافت کے اصولوں پر سوال اٹھا سکتے ہیں، وجودِ خدا پر کلام کرسکتے ہیں (ان باتوں کا پاکستان میں استعمال سے گریز کیا جائے)۔

یہ سب ارتقاء کا ہی حصہ ہے اور یہ امر حقیقت ہے اس کو کوئی جھٹلا بھی دے تو اس کے دھارے سے نہیں نکل سکتا۔ تاریخ میں بھی تغیر ہے۔ آپ دیکھ لیں ماضی میں جو قومیں سیاہ دھبہ تھیں وہ آج ترقی کی کئی منازل طے کر چکی ہیں۔ آپ امریکا کی مثال لے لیں۔ 1492 کے بعد کرسٹوفر کولمبس کے ہاتھوں اور پھر بعد میں مجموعی طور پر 3 لاکھ ریڈ انڈینز کی نسل کشی شرمناک تھی اور ہے۔

امریکا میں غلاموں کی تجارت کے لیے باقاعدہ منڈیاں قائم تھیں اور اشرافیہ کا زور اتنا تھا کہ وہاں پر غلاموں کے لیے غیر انسانی قوانین بنائے گئے تھے جس میں سے ایک قانون کے مطابق غلام کو قتل کرنے پر 720 پاؤنڈ (اس وقت ڈالر کا رواج نہیں تھا) بطور جرمانہ رکھا گیا تھا۔

پھر یہ دور بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہی امریکا شخصی آزادی، قانون کی پاسداری، اور برابری کا سب سے بڑا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے۔ چلیں آپ برطانیہ کو پڑھ لیں۔ 17 ویں صدی کی خانہ جنگی کا کسے نہیں پتا؟ وہاں لوٹ مار، جبری استحصال، عورت کے ساتھ تحقیر آمیز رویے سے کون واقف نہیں؟

اولیور کروم ویل جیسے شخص کی بدولت ایک جمہوری ریاست بننے والا برطانیہ آج پر امن خطے کی علامت ہے۔ 19 ویں صدی اور 20 ویں صدی کے نصف تک برطانیہ کے سائے تلے کالونیاں پانچ بر اعظموں پر محیط تھیں۔ اس کی حدود میں سورج کے غروب نہ ہونے کا محاورہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ کیوں؟

انسان کا وجود جب قدرت کے جبر تنِ تنہا سہتا تھا تو اس کے اعضاء قدرت کی سختیوں کی وجہ سے اسے جھیلنے کے قابل ہونے لگے، اور پھر قدرت کے تقاضوں کے مطابق ڈھل جانے میں اس کو لاکھوں سال لگے۔

پھر اوزاروں کے استعمال، آگ کی دریافت سمیت کئی چیزوں سے واقفیت پر اس کی زندگی قدرے سہل ہوگئی اور اس نے ایک خاندان کی تشکیل پر توجہ دی اور پھر ایک جوڑے سے خاندان، اس سے قبیلہ اور اس سے معاشرہ تشکیل ہوا۔

مل جل کر رہنے سے متعدد خیالات نے جنم لیا۔ کھیتی باڑی سے معاش کا مسئلہ حل ہوا تو انسان کو کئی چیزیں سوچنے کا موقع ملا۔ اول میں قدرت انسان کی توجہ کا مرکز رہی۔ مابعدالطبیعاتی نظریات کا ابھار اور مظاہر قدرت کی پرستش کا آغاز وہیں سے ہوتا۔ تمام الہامی کتب میں ابراہیم علیہ السلام کا قدرت سے متاثر ہونے کا واقعہ موجود ہے۔ پھر ضرورتیں بڑھ گئیں اور انسان ایجادات کی طرف راغب ہوا، اور اسی طرح ڈھلتے ڈھلتے معاشرہ ترقی کرتا رہا۔

یہ نظریہ مارکس سمیت کئی موجودہ فلاسفرز اور ماہر عمرانیات کا ہے۔ جب انسان اور معاشرہ دونوں ہی ارتقاء کے مرحلے پار کر رہے تھے، عین اسی وقت انسان کا شعور بھی اپنی منازل طے کر رہا تھا، یا یوں کہیں کہ یہی اصل محرک تھا جس کی وجہ سے آج ہم یہاں ہیں۔

امریکا، برطانیہ، روس، مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کے دوسرے ممالک اپنے اپنے حالات و واقعات کے سبب یہاں پہنچے ہیں۔ معاشرتی ارتقاء کے ساتھ ان کے شعور کی ترقی بھی ہوئی ہے، جس نے ان کو خانہ جنگی، دقیانوسی خیالات، ظلم و جبر، شخصی غلامی سمیت تمام فرسودہ خیالات سے چھٹکارا دلوایا اور تعلیم سمیت مذہبی، ثقافتی اور لسانی روادری کی عمومیت کی طرف راغب کیا۔ آج وہ تمام دنیا کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔ یہی قدرت کا قانون ہے، کبھی یورپ اندھیرے میں اور بغداد روشن، تو کبھی سمرقند بارود کی بو میں لپٹا ہوا اور برطانیہ پر امن۔

ہندوستان بھی تاریخ کا ایک روشن باب رہا ہے۔ ادب، تہذیب، رنگوں اور مذاہب کا ایک خوبصورت امتزاج تھا. مگر اس خطے نے قدرت کے ارتقائی اصولوں کو سمجھنے میں دیر کردی۔ جب وقت کا تقاضا انسانی فلاح کے لیے کوشش تھی، تب ہندوستان کے مسلمان اسلام کے احیاء اور ہندو دھرم بچاؤ تحریکوں میں جٹ گئے، نتیجتاً شعوری ارتقاء کے اس مرحلے کو پار نہ کرسکے جس کو یورپ کر گیا۔

فرق صرف قدرت کے تقاضوں کو سمجھنے کا تھا۔ یہی غلطی ہم 21 ویں صدی کا ایک عشرہ عبور کرنے کے بعد بھی کر رہے ہیں۔

برصغیر، خصوصاً پاکستان میں انسانی استحصال، مالی استحصال، لسانی اور مذہبی تفریق کر کے یہاں شعوری ارتقاء کو روکا جا رہا ہے جس کی سب سے بڑی مثال سندھ اور بلوچستان کا موازنہ پنجاب اور کے پی کے سے کرنے پر سامنے آئے گا۔

ریاست کے مفاد کی بات ہے، ورنہ خود سوچیے کہ تعلیم پر زیادہ بجٹ دینے، انتخابی اصلاحات کرنے، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور بنیادی حقوق کی بحالی میں کیا دقت ہے؟ پچھلے 70 سالوں سے جاگیردار، اشرافیہ، سیاست دان، فوجی، مولوی اور مفاد پرست لبرلز نے ہمیشہ اپنا نقطہءِ نظر قدرت کے تقاضوں کے برخلاف رکھا، جس کی وجہ سے ہمیں اس بھوک، عدم مساوات، عدم برداشت، منافرت اور دہشتگردی کا سامنا ہے۔

ذہنی ارتقاء، تعلیم و آگاہی اور سوچ کی آزادی سے پروان چڑھتی ہے جس کے آڑے آج مذہب، زبان، اندھی حب الوطنی اور ثقافتی اقدار حائل ہیں جن کو ہٹائے بغیر زمانے سے مقابلہ ناممکن ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

fsfasfaf Jan 08, 2017 01:17pm
Very nice. First time seen such kind of article on main stream media. Looks like ice is breaking