کراچی: سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی(سی پی ایل سی) کی جانب سے شہر قائد میں موجود 60 ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اسٹریٹ کرائمز کے واقعات بالخصوص موبائل فونز چھینے جانے کی شرح میں حیران کن حد تک اضافہ سامنے آیا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا ماننا ہے کہ ان 60 مقامات کی نشاندہی کے بعد علاقہ پولیس اگر واقعات کو مکمل طور پر ختم نہ بھی کرسکی تو مسلسل نگرانی اور گشت کرکے اس میں واضح کمی لائی جاسکتی ہے۔

سی پی ایل سی کی جانب سے فراہم کی جانے والی تفصیلات واضح کرتی ہیں کہ کس طرح گذشتہ چند ماہ کے دوران شہر کے مصروف اور گنجان آباد علاقے جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔

یہ تفصیلات سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) کی انتظامیہ کو علاقے میں جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو پانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے میں رہنمائی فراہم کرسکیں گی۔

سی پی ایل سی کی فراہم کردہ معلومات میں کراچی کے 6 اضلاع میں موجود ان 60 مقامات کے نام اور مقامات شامل ہیں جنہیں چوری اور موبائل چھینے جانے کا 'ہاٹ اسپاٹ' قرار دیا گیا ہے۔

مزید دیکھیں: کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ

حکام کے مطابق 2016 کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران اسٹریٹ کرائمز کے واقعات بہت کم رہے تاہم گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں جرائم میں ہونے والے اضافے نے کافی متاثر کیا۔

اس معلومات کو اکھٹا کرنے والے افسر کے مطابق اسٹریٹ کرائمز کی وضاحت کے مختلف انڈیکیٹرز ہیں، اس میں موبائل فونز اور گاڑیوں (جس میں موٹر بائیکس اور کاریں دونوں شامل ہیں) کی چوری شامل ہے تاہم موبائل فون چھینے جانے کو اس حوالے سے اہم انڈیکیٹر سمجھا جاتا ہے جس کا شکار معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہوتے ہیں اور شہر کے تمام علاقوں کے رہائشیوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کے مطابق 2015 میں تقریباً 21 ہزار 198 موبائل فونز چھینے گئے جبکہ 20 ہزار 442 ہزار موبائل فونز چوری ہوئے، 2016 میں شہر بھر سے کل 34 ہزار 137 موبائل فونز چھینے گئے یا چوری ہوئے۔

سی پی ایل سی حکام کے مطابق 9 ماہ کم رہنے کے بعد 2016 کی آخری سہ ماہی میں اسٹریٹ کرائم کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

سی پی ایل سی کی معلومات کے مطابق کراچی کے ضلع شرقی میں ستمبر سے دسمبر 2016 کے درمیان موبائل چھینے جانے کے 415 کیسز رجسٹر ہوئے۔

اسی ضلعے میں جرائم پیشہ افراد کے ہاٹ اسپاٹ قرار دیئے جانے والے علاقوں میں ڈسکو بیکری (گلشن اقبال)، الہٰ دین پارک، کانٹینینٹل بیکری(گلشن اقبال)، ڈولمن مال، ملینیئم مال، بلوچ کالونی پل،اقراء یونیورسٹی، نورانی کباب ہاؤس، نیپا اور امبالا بیکری شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی : اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ، پولیس کا کردار؟

سی پی ایل سی کے مطابق ضلع وسطی میں ستمبر سے دسمبر 2016 کے درمیان 249 کیسز رجسٹر ہوئے اور یہاں کے علاقوں میں میٹرک بورڈ آفس، حیدری مارکیٹ، صائمہ پاری مال، مینا بازار، سرینا موبائل مارکیٹ، لیاقت آباد سپر ماکیٹ، سندھی ہوٹل، ضیاءالدین ہسپتال، امتیاز سپر مارکیٹ(ناظم آباد) اور دھمتھل سوئٹس کے گرد کا علاقہ (فیڈرل بی ایریا) شامل ہیں۔

ان مقماات کی نشاندہی کے بعد افسر کا کہنا تھا کہ علاقہ پولیس کی پہلی ذمہ داری ہونی چاہیئے کہ وہ ان جگہوں پر نظر رکھے ورنہ اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان علاقوں کی نگرانی اور گشت مقامی پولیس کی ذمہ داری ہے کیونکہ وہ ان علاقوں کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں۔

ان کے مطابق شہری یا کسی اور سطح پر بہت کچھ منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے مگر پالیسی تیار کرنا علاقہ پولیس کا کام ہے، وہ علاقے کے ہر کونے سے واقفیت رکھتے ہیں اور پولیس اسٹیشن کی حدود میں موجود تمام مقامات کی بھی آگاہی رکھتے ہیں تاہم بدقسمتی سے کبھی ایک وجہ سے تو کبھی دوسری، اسٹریٹ کرائمز سے نمٹنا ان کی ترجیح نہیں رہی۔


یہ خبر 9 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں