موسیقی کے عظیم ترین کردار تان سین کے مزار کے کتبے پر لکھا ہے "تانسین: راگ کا بادشاہ۔" تانسین کا گایا ہوا راگ تو کیا، ایک آلاپ بھی ریکارڈ پر موجود نہیں۔ ہندو تھا یا مسلمان، کسی ٹھوس حقیقت تک رسائی نہ ملی، جس نے جو کچھ لکھا، اسے اپنا ہم مذہب سمجھا۔

لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ ایسا جادوگر راگی تھا کہ راگ دیپک گاتا تو دیے جلنا شروع ہو جاتے اور راگ میگھ کے سر چھیڑتا تو بادل برس پڑتے۔ آج بھی تان سین موسیقی کا سب سے بڑا نام ہے اور شاید اس کے پاس سروں کی بادشاہت ہمیشہ رہے گی۔

کلاسیکی موسیقی میں اپنی خدمات کے لیے مشہور گوالیار گھرانے کا براہ راست تعلق تان سین سے ہے۔ اسی گوالیار گھرانے کے چند افراد 19 ویں صدی میں گوالیار سے باہر نکل آئے۔ ان میں سے کچھ دہلی، امرتسر، لاہور اور چند سندھ میں آکر آباد ہوئے۔

اس گھرانے کے ایک فرد استاد شادی خان اپنے کنبے کے ساتھ سندھ آئے اور شکارپور میں آ کر آباد ہوئے۔ آگے چل کر اس گھرانے میں ایک فنکار ایسا بھی پیدا ہوا جس نے سندھی موسیقی کو چار چاند لگا دیے۔

استاد گھرانے کے اس چشم و چراغ نے نہ صرف سندھی کلاسیکی موسیقی کو عروج بخشا بلکہ اپنے شاگردوں کی ایک بڑی کھیپ پیدا کی جنہوں نے سندھی موسیقی میں سروں اور تال سے کمالات کیے۔ وہ عظیم فنکار منظور علی خان ہیں جو سندھی موسیقی کا ایک روشن ستارہ ہیں۔

مشہور براڈ کاسٹر کوثر برڑو نے منظور علی خان پر مرتب کتاب استاد منظور علی خان میں لکھا ہے کہ ’’منظور علی خان کا شجرہ نسب دسویں پشت میں تان سین سے جا کر ملتا ہے، تان سین کے بیٹے افلاس خان سے یہ نسل آگے بڑھی اور منظور علی خان اس کے چشم و چراغ ہیں‘‘۔

استاد سیندھو خان سندھ کی دھرتی پر قیام پذیر اس گھرانے میں جنم لینے والا پہلا بچہ تھا۔ شادی خان استاد منظور علی خان کے پردادا تھے، دادا کا نام کریم بخش خان، والد جمال عرف استاد جمالو خان اور پھر استاد منظور علی خان۔

استاد منظور علی خان کے دادا استاد کریم بخش خان بھی اپنے دور کے اتنے بڑے راگی تھے کہ 1911 میں برطانیہ کے بادشاہ جارج فیڈرک البرٹ ارنسٹ عرف جارج پنجم کی تاج پوشی کے موقع پر شاہی محفل موسیقی میں سندھ کے فنکاروں کی نمائندگی بھی انہوں نے کی۔

منظور علی خان کا جنم سال 1926 میں ہوا۔ ان کے والد اور سندھ کے بڑے کلاسیکی راگی جمالو خان درگاہ شاھ پور جہانیاں کے مرید تھے، جمالو خان نےاپنے بیٹے کا نام محمد ابراہیم رکھا تھا، لیکن درگاہ کے گدی نشین نے ایک دن منظور کہہ کر پکارا تو وہ ابراہیم خان سے منظور، پھر استاد منظور اور بعد میں خان صاحب استاد منظور علی خان بن گئے۔

منظور علی خان نے راگ کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی لیکن بعد میں اپنے چچازاد بھائی سیندھو خان کی شاگردی میں آئے، سیندھو خان سے شہرِ ہالا کے مخدوم طالب المولیٰ نے بھی راگ کی تعلیم حاصل کی تھی، منظور علی خان کا کہنا ہے کہ ہم نے راگ ایک ہی وقت ایک ہی استاد سے سیکھا تھا۔

فنِ موسیقی پر دسترس رکھنے والے محمد قاسم ماکا بتاتے ہیں کہ جو پہلا سندھی کلام 1892 میں جرمنی کی گرامو فون کمپنی نے ریکارڈ کیا تھا، اس کے گائیک کا نام محمد ابراہیم تھا۔ جرمنی کے بعد ریکارڈنگ کمپنیوں نے اپنا مرکز کلکتہ بنایا جہاں بھی کئی سندھی فنکاروں کے کلام ریکارڈ ہوئے۔

سندھ میں منظور علی خان سے پہلے بھی کئی راگی، موسیقار، صوفی فنکار اور گائیک موجود تھے، کچھ منظور علی خان کے ہم عصر، کچھ ان سے چھوٹے، کچھ بڑے، اور کچھ استاد کے جنم سے پہلے بھی سندھی راگ میں کمالات دکھا کر گزر چکے تھے۔

یہ راگ سے محبت کرنے والوں کی کشش ہی تھی کہ اس گھرانے نے سندھ کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔ اس زمانے میں شکارپور اور سکھر کے ہانڈے ( فنکاروں کی محفلیں اور مقابلے) مشھور تھے۔ استاد پیارے خان، امید علی خان، استاد گامن خان، سندھی عرف سیندھو خان، عاشق علی خان، بیبو خان، مبارک خان، مراد علی خان اور کئی دیگر مشہور ہوئے۔ لیکن جب استاد منظور علی میدان میں اترے تو سندھی کلاسیکی موسیقی میں شہرت کے اس عروج پر پہچنے جسے سندھ میں کوئی چھو نہیں پایا تھا۔

سندھی زبان منظور علی خان کی مادری زبان نہیں تھی لیکن کمال کی بات ہے کہ سندھی سیکھنا، سندھی راگ کو پرکھنا، سندھی موسیقی میں نئی چالیں چلنا، نئے پرانے سروں کو ملانا، اپنے جدی پشتی راگ کے پیمانے پر سندھی لوک موسیقی کی پیمائش کرنا، پھر نئے تجربے کرنا، مطلب کہ سندھی راگ کو ایک نئی شکل دینے کا مشکل کام استاد منظور علی خان جیسی 'اتھارٹی' ہی کرسکتی ہے۔

استاد منظور علی خان ایک محفلِ موسیقی میں سر بکھیر رہے ہیں
استاد منظور علی خان ایک محفلِ موسیقی میں سر بکھیر رہے ہیں

یہ استاد منظور علی خان ہی تھے جو شاہ عبداللطیف بھٹائی کے راگ کو درگاہ سے کھنیچ کر باہر میلے اور محفلوں تک لائے۔ شاھ بھٹائی کی وائی کو عوامی حلقوں میں عام کرنے میں استاد منظور علی خان کا اہم کردار ہے۔ جب شاہ بھٹائی کو منظورعلی خان جیسا مہان راگی مل گیا تو لطیف سرکار کی محبت کا پیغام بھی عام ہونے لگا۔ شاھ بھٹائی کو جس سادگی، سچائی، اصل روح، آسان زبان، تحت اللفظ اور محنت سے استاد منظور علی خان نے گایا، اس طرح پہلے کسی نے نہیں گایا تھا۔

استاد منظور نے یہ بات سمجھائی کہ "سر رانو" خالص سندھی راگ ہے، یہ باہر سے نہیں آیا، راگ رانو کا جنم صدیوں سے جاری سندھی لوک موسیقی سے ہوا ہے۔‘‘ پھر رانو راگ کو منظور علی خان نے ایسا گایا کہ برسہا برس گزر گئے، لیکن اب بھی رانو گانے والے فنکار استاد کی مقرر کردہ بندشوں، حدود و قیود سے باہر نہیں نکل سکتے۔

اپنے ایک ویڈیو انٹرویو میں استاد منظور علی خان کہتے ہیں کہ "میں نے سندھی راگنی کی خوشبو کو نقصان نہیں فائدہ پہنچایا ہے اور سندھی راگ کو وسعت دی ہے۔ پہلے سندھی کلام میں کلاسیکی رنگ نہیں تھا جو پھر ہم نے دیا اور اس کی چال کو بدل دیا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کیا کہ اس کا پرانا رنگ ہی بدل جائے۔‘‘

راگ سیکھنے کی محنت کے بارے میں بھی استاد کا اپنا خیال یہ ہے کہ اچھا راگ سیکھنے اور سنانے کے لیے کسی فنکار کی عمر تین سو برس ہونی چاہیے۔ پہلے سو سال راگ سیکھنا چاہیے، پھر سو سال اس کا ریاض کر کے اسے اور پکا کرنا چاہیے، اور پھر سو سال کے لیے لوگوں کو اچھا راگ سنایا جائے۔

استاد نے اپنے مختصر ویڈیو انٹرویو میں یہ کہا ہے کہ "کہ عام سندھی راگ تو کوئی بھی شاگرد ایک سال میں سیکھ کر گا سکتا ہے، لیکن ہمارا علم وہ ہے جس میں سالہا سال کا ریاض ہے پھر بھی سیکھنے کی گارنٹی نہیں۔"

سندھی موسیقی کو ایک خالص کلاسیکی شکل دینے میں استاد کی محنت کا پھر نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں سندھی راگ، کافی، وائی، غزل، ٹھمری، خیال اور دادرے کی بات ہو، یا جدید سندھی پاپ موسیقی کا ذکر ہو، استاد منظور کا ذکر خود بخود ہی نکل آتا ہے۔ استاد نے موسیقی کے میدان میں نام، عزت، احترام اور عظمت سب ساتھ ساتھ کمایا اور گانے اور سکھانے کے اپنے طے شدہ اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی۔

استاد منظور علی خان کا راگ سامعین پر سحر طاری کر دیتا تھا
استاد منظور علی خان کا راگ سامعین پر سحر طاری کر دیتا تھا

تانپورہ، ستار، سرمنڈل اور ہارمونیم بجانے میں ماہر ہونے کی وجہ سے کوئی چھوٹا موٹا سازندہ تو ان کے ساتھ بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا، اس لیے وہ ہمیشہ اپنے ساتھ نامی گرامی ماہر سازندہ رکھتے تھے۔

استاد منظور کی محفلوں کو سننے والے کئی لوگ کہتے ہیں کہ استاد اپنے گلے سے نکلے ہر سر میں سننے والوں کو جکڑ دیتا اور پھر یہاں سے وہاں گھما پھرا کر وہیں آکر چھوڑتا جہاں سے اٹھایا تھا۔

انہیں روبرو سننے والے مانتے ہیں کہ استاد بھیروی گاتا تو ہم خود کو محبت، تڑپ اور انتظار کے کسی پل صراط پر چلتا محسوس کرتے تھے، وہ نوری جام تماچی کی داستان چھیڑتے تو محفل کہیں بھی ہو لیکن سننے والے خود کو کینجھر جھیل کے کناروں پر خیمہ زن ہوئے محسوس کرتے تھے اور جس داستان سے منسلک راگ گاتے وقت سروں میں داستان گوئی اور عکاسی کرنا منظور علی خان سے کوئی سیکھے۔

منظور علی خان نے صوفیوں کی درگاہوں پر خود جا کر اپنے سروں سے خراج عقیدت پیش کرنا اپنا فرض سمجھا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست، بابا بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، مصری شاہ، حمل فقیر، منٹھار فقیر، مہدی شاہ، بڈھل فقیر،غلام حیدر، روشن شاھ، بچل فقیر، حاکم شاہ، مخدوم طالب المولیٰ اور کئی شاعروں کو گایا۔

کئی محفلوں میں استاد نے اردو غزل گیت گائے مگر بدقسمتی سے عام ریکارڈ پر ان کے دو تین ہی اردو غزل ملتے ہیں جن میں فیض احمد فیض کا ’’ دل میں اب یوں تیرے بھولے ہوئے غم آتے ہیں، جیسے بچھڑے ہوئے کعبے یچں صنم آتے ہیں،‘‘ اور قتیل شفائی کی غزل ’’پریشان رات ساری ہے ستارو تم تو سو جاؤ ‘‘۔

ان کے سروں میں مٹھاس تھی اور بول چاشنی جیسے تھے، لیکن بطور ایک استاد وہ کافی سخت تھے۔ جس وقت وہ شاگردوں کو راگ کا علم دیا کرتے تھے، ان کے لہجے میں اس وقت کرختگی ہوتی۔ وہ جہاں راگ سکھاتے تھے اس جگہ کو مدرسہ کہتے تھے، جہاں کئی شاگرد رہتے تھے جن کا پورا خیال بھی استاد رکھتے تھے لیکن راگ کے معاملے میں خوب سختی کی جاتی تھی۔ اپنے بھانجے وحید علی خان کو کہا کرتے تھے "راگ سیکھنا ہے تو مجھے ماموں مت کہا کر میرا شاگرد بننا پڑے گا۔"

دنیائے موسیقی کے ایک بڑے نام استاد یوسف کو بھی کئی بار جھاڑ پلا دیا کرتے تھے۔ اسی سختی کی وجہ سے شاگرد استاد کے پاس زیادہ ٹک نہیں پاتے تھے، بس استاد گلزار علی خان نے تیرہ سال منظور علی خان کا ساتھ نبھایا۔

سندھ میں منظور علی خان راگ کی وہ اکیڈمی تھے کہ اگر آج سارے سریلے فنکاروں کی ایک فہرست بنائی جائے تو استاد منظور کے شاگردوں کے شاگرد ہی میدان میں ملیں گے۔

منظور علی خان کے شاگردوں میں استاد یوسف، استاد گلزار علی، وحید علی خان، تولا رام ممبئی والا، مرحوم قمر سومرو، مرحوم وزیر علی، امیر علی، انور وسطڑو، حمید عباسی، ہجن داس لکھنؤ والے، عرس مگنہار، رسول بخش بھٹ، فقیر عبدالغفور، دین محمد دمساز، رجب علی اور کئی دیگر شامل ہیں۔

سندھی ماہنامہ بادل کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں استاد منظور علی خان نے کہا ہے کہ "میں نے 1951 میں سردار عبدالرب نشتر کے سامنے گایا۔ 1952 میں تب کے گورنر جنرل ناظم الدین کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، اسی سال مولانا بھاشانی سن شہر میں آئے تو مجھے بلایا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد اور جنرل اسکندر مرزا نے بھی مجھے بہت پسند کیا، جنرل ایوب خان کے سامنے تو دس پندرہ بار گانے کا موقع ملا‘‘۔

حمید سیہوانی نے منظور علی خان پر لکھی کتاب میں کہا ہے کہ، "وزیراعظم نے خوش ہو کر ماموں کو کہا کہ اپنے لیے کیا چاہیے، استاد نے انکار کیا تو لیاقت خان نے کہا کہ نہیں کچھ تو لینا ہی پڑے گا، جس پر استاد نے کہا "بس ایک ریوالور اور اس کا لائسنس عنایت کردیں۔"

پیر علی محمد راشدی نے اپنی کتاب اھی ڈینہن اھی شینہن میں لکھا ہے کہ "پاکستان کی پہلی کابینہ کے مرکزی وزیر پیرزادہ عبدالستار کا پسندیدہ فنکار استاد منظور علی خان تھا، استاد منظور کے آواز میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کا راگ سن کر پیرزادہ عبدالستار کی کیفیت ہی بدل جاتی تھی۔‘‘

اپنے دور کے امرا سے لے کر غربا تک سب کی دعوت پر منظور علی خان تشریف لے آتے اور پیسے کو کبھی اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ انہوں نے کبھی کسی سے محفل کے لیے پیسے ایڈوانس نہیں لیے۔ ان کا ماننا تھا کہ محفل میں جو رقم ملی اس پر گزارا کر لیں گے، بس ٹرانسپورٹ کا انتظام ہونا چاہیے۔

منظور علی خان نے تاحیات راگ کے متعین کردہ اصولوں کے معاملے پر بھی کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا. کہتے ہیں کہ ایک بڑے صاحب کی دعوت میں دو گیت گانے کے بعد دولہے نے ہو جمالو سنانے کی فرمائش کی جس پر استاد نے کہا وہ آخر میں گایا جاتا ہے۔ دولہے نے کہا کہ ابھی سننا ہے۔ استاد نے ہو جمالو گایا اور ساز سمیٹ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

کہتے ہیں کہ بڑے صاحب اور سارا گاؤں استاد کی منت سماجت کرتے رہے لیکن استاد نے کہا کہ راگ کے اپنے اصول ہوتے ہیں، پیسے اپنے پاس رکھو میں ہو جمالو کے بعد کچھ نہیں گاؤں گا۔

عبدالواحد آریسر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جی ایم سید کی طرف سے ہم استاد منظور علی خان کو پروگرام میں دعوت دینے گئے، اس وقت بڑی گاڑیوں میں کچھ افراد استاد کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ غیر ملکی سفیروں کے لیے دعوت رکھی گئی ہے آپ کو لینے آئے ہیں، جس پر استاد منظور نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بٹھورے جانا ہے۔

استاد منظور علی خان نے بس میں میرپور بٹھورو تک سفر کیا، وہاں جب محفل سجی تو جی ایم سید بھی موجود تھے، ایک دوہڑے پر جب جی ایم سید کی آنکھوں میں آنسو نکلے تو استاد منظور نے کہا کہ ’’مجھے سفیروں کی دعوت میں ایسی داد ملنی تھی کیا؟‘‘

54 سال کی عمر میں وہ 1980 میں انتقال کر گئے۔ وہ تین سو سال تو نہیں جی سکے، مگر جو چالیس برس گائیکی سے وابستہ رہے، ان چالیس برس میں وہ سندھی راگ کے لیے کئی صدیوں کا کام کر گئے۔ انہوں نے جو راگ گانے، سکھانے، سمجھنے اور سمجھانے کے لیے پیمانے طے کیے، ان کو آج تک کوئی چیلنج نہیں کرسکا۔

مخدوم طالب المولیٰ نے استاد منظور علی خان کو "بہارِ موسیقی" کا لقب دیا۔ وہ سدا بہار ہیں، انہیں سندھی موسیقی کا امام اور راگ کا رانا کہا جائے تو بھی غلط نہیں، ہم آج تک استاد منظور علی خان کے عہد میں جی رہے ہیں اور آج بھی سندھی موسیقی میں پسندیدگی کا اعلیٰ معیار استاد منظور علی خان ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

RIZ Jan 30, 2017 12:55pm
wah saeen kya likha hai,, sindhi raag
israr Jan 30, 2017 04:45pm
great write-up for great Singer.