فوجی عدالتوں میں توسیع، تاحال تعطل برقرار
اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات کا تیسرا راؤنڈ بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا جبکہ معاملہ تاحال تعطل کا شکار ہے۔
نیشنل ایکشن پلان اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج پر ہونے والے والی اِن کیمرہ بریفنگ کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مختلف اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے مذکورہ اجلاسوں سے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی مستقل غیر حاضری پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
گذشتہ روز ہونے والے اجلاس کی صدارت قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے کی اور آئندہ اجلاس 16 فروری کو منعقد کیا جائے گا۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے پیش کی جانے والی بریفنگ پر اپوزیشن اراکین نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
اپوزیشن اراکین نے حکومت کو اس معاملے پر متعلقہ تجاویز اور واضح روڈ میپ پیش کرنے کا کہا ہے تاکہ وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل اس معاملے پر اپنی جماعتوں سے بات چیت کرسکیں۔
انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کا معاملہ ایک بڑے فورم پر کیا جانا چاہیے اور وزیراعظم نواز شریف کو اس مسئلے پر ایک کثیر جماعتی کانفرنس طلب کرنی چاہیے جیسا کہ اس حوالے سے ماضی میں کیا گیا تھا۔
سیاسی حلقے میں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت تمام سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں میں توسیع نہیں چاہتیں اور اسی لیے اس معاملے کو عالمی سطح پر لایا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد جنوری 2015 میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد دہشت گردی میں ملوث شہریوں کا ٹرائل کرنا تھا۔
ان فوجی عدالتوں کو دونوں ایوانوں سے 21ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے ذریعے دو سال کیلئے آئینی تحفظ فراہم کیا گیا تھا، تاہم اس میں اس کی اختتامی مدت کی نشاندہی کی گئی تھی جس کے تحت وہ 7 جنوری کو اپنی میعاد مکمل کرچکی ہیں۔
تاہم اس موقع پر اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ فوجی عدالتیں ملزمان کے خلاف ٹرائل کے بجائے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا باعث ہوں گی۔
ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انھوں نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو اس حوالے سے اعتماد میں لینے میں کامیاب ہوگئی ہے، جیسا کہ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمٰن اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے فوجی عدالتوں کی توسیع کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بریفنگ سے وزیر داخلہ اور دیگر سینئر سیکیورٹی حکام کی مستقل غیر حاضری پر بھی سوال اٹھایا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی جاننا چاہتی ہے کہ کیا حکومت کمیٹی کی سطح پر اتفاق رائے قائم کرنا چاہتی ہے جیسا کہ اس حوالے سے پارلیمانی رہنماؤں اور تمام پارٹیز کے سربراہان کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا جاچکا ہے۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت نے عدالتوں کے نظام میں اصلاحات کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں کیونکہ فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت اس شرط پر دی گئی تھی کہ اس دوران حکومت عدالتی نظام میں اصلاحات متعارف کرائے گی۔
نیشنل ایکشن پلان پر بریفنگ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے ان اجلاسوں کو بے نتیجہ قرار دیا جبکہ وزیر قانون زاہد حامد نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اپوزیشن کے تمام سوالوں کے جواب دے دیے ہیں۔
اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ فوجی عدالتوں نے گذشتہ دو سال کے دوران 161 افراد کو سزائے موت سنائی جس میں سے 13 کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
اس کے علاوہ 56 مقدمات وفاقی وزارت داخلہ جبکہ 92 مقدمات صوبائی وزارت داخلہ میں تعطل کاشکار ہیں۔
شرکاء کو بتایا گیا کہ 2001 سے اب تک ملک میں دہشت گردی کے 17704 واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں 17563 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 12400 شہری اور 5163 سیکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔
حکومت نے یہ بھی بتایا کہ آپریشن کے آغاز کے بعد ملک بھر میں اور خاص طور پر کراچی میں دہشت گردی اور جرائم میں واضح کمی ہوئی ہے، کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد کمی آئی ہے۔
اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 69 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ قتل کے واقعات میں 50 فیصد اور ڈکیتی میں 30 فیصد کمی ہوئی ہے۔










لائیو ٹی وی