اسلام آباد: حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اس نے متنازع نندری پور توانائی منصوبے کو آپریشنل کرنے اور اس کی مینٹنینس کیلئے چینی کمپنی سے 10 سال کا معاہدہ کرلیا ہے۔

پانی اور توانائی کی وزارت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق 425 میگاواٹ توانائی کے پلانٹ کا آپریشنل اور مینٹینس کا یہ طویل معاہدہ چین کی کمپنی نادرن پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ (این پی جی سی ایل) اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور سسٹم انرجنگ کمپنی (ایچ سی پی ایس ای سی) سے کیا گیا ہے۔

معاہدے کی مدت 10 سال اور اس میں بعد ازاں دو اہم انسپکشنز بھی شامل ہیں تاہم معاہدے کی مالیت کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے ماضی میں منظور کردہ لاگت 48 پیسہ فی یونٹ سے مبینہ طور پر زائد مقرر کرنے کی تصدیق یا تردید کے حوالے سے پانی اور توانائی کے سیکریٹری محمد یونس داغا سے رابطہ کیا گیا تاہم اس حوالے سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا، حکومت کے حالیہ فیصلے کے بعد نیپرا کو وزارت پانی و بجلی کے انتظامی کنٹرول میں ہے۔

تاہم محکمہ کے ایک عہدیدار، جن کو میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں، نے ڈان کو بتایا کہ چینی بولی دہندہ کو اس عمل کے تحت منتخب کیا گیا ہے جس کا آغاز گذشتہ سال 11 اپریل میں ہوا تھا اور 6 اگست کو حتمی شکل دی گئی تھی۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ بولی میں مجموعی طور پر 4 کمپنیوں نے حصہ لیا تھا جن میں دو کو غیر ذمہ دار قرار دیا گیا۔

ایچ سی پی ایس ای سی نے سب سے کم بولی لگائی تھی جس کی مالیت 18 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تھی جبکہ ملیشیا کی ٹی این بی ریپئر اینڈ مینٹینس نے 22 کروڑ 72 لاکھ ڈالر کی بولی لگائی تھی۔

اس طرح آپریشنل اور مینٹینس کی فی یونٹ لاگت کا تخمینہ 85 پیسہ لگایا گیا، یہ لاگت فرنس آئل کے استعال کی صورت میں تھی، مذکورہ لاگت نیپرا کی منظور کردہ لاگت سے 80 فیصد زائد ہے۔

ریگولیٹر نے فرنس آئل کے استعمال کی صورت میں آپریشنل اینڈ مینٹینس لاگت فی یونٹ 48 پیسہ اور گیس کے استعمال کی صورت میں یہ لاگت 34 پیسہ فی یونٹ مقرر کی تھی۔

یہ فی یونٹ آپریشنل اینڈ مینٹینس لاگت 1292 میگاواٹ کے حب پاور پلانٹ کے مقرر کردہ فی یونٹ لاگت سے 62 پیسے زیادہ اور اے ای ایس لالپور سے 35 پیسے فی یونٹ زیادہ ہے، جو 1990 میں 35 پیسہ اور 16 پیسہ فی یونٹ مقرر کیے گئے تھے۔

وزارت نے اپنے جاری بیان میں دعویٰ کیا کہ نندی پور پاور پلانٹ جولائی 2015 سے مکمل طور فرنس آئل پر کام کررہا ہے، تاہم مذکورہ پلانٹ نیپرا کی تنقید اور اس کے بند ہونے کے باعث میڈیا میں خبروں کی زینت بنتا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ پلانٹ کو قدرتی گیس پر چلانے کیلئے کام جاری ہے اور اس کیلئے 88 کلومیٹر پائپ لائن بچھائی جارہی ہے۔

وزارت پانی اور توانائی کا مزید کہنا تھا کہ 'پلانٹ کی گیس پر منتقلی کا کام اپریل 2017 تک مکمل کرلیا جائے گا جس سے اس کی کارکردگی میں واضح بہتری آئے گی، آپریشنل لاگت کم ہوگی جس سے مجموعی بہتری آنے کا امکان ہے جبکہ بجلی کی پیداوار 100 میگاواٹ سے بڑھ کر 525 میگا واٹ ہوجائے گی۔

یاد رہے کہ منصوبے کی لاگت اور اس کے ٹیرف کے معاملات 2008 سے سیاسی اور تکنیکی تنازعات کا شکار ہیں۔

حکومت ریگولیٹر کی جانب سے منظور کے گئے ٹیرف پر عدالتی نظر ثانی کیلئے غور کرتی رہی ہے تاہم نیپرا نے حکومت کی درخواست کو ہر مرتبہ نامنظور کیا اور ان کی توانائی کی کمپنیوں کو 425 سے 525 میگاواٹ کے ندری پور منصوبے کی لاگت کو 65 ارب روپے جبکہ اسی کے مطابق ٹیرف فرض کرنے کا کہا۔

نندی پور پاور پلانٹ کے ٹیرف کے مقرر کرنے کے حوالے سے حکومت اور نیپرا کے درمیان رسا کشی جاری رہی جبکہ متعدد دیگر وجوہات کی وجہ سے منصوبہ گذشتہ پانچ سالوں سے تعطل کا شکار ہے۔

اس حوالے سے حال ہی میں تنازع اس وقت کھڑا ہوا تھا جب گذشتہ سال تکنیکی خرابی کے باعث پلانٹ بند ہوگیا تھا اور توانائی کی کمپنی کے چیف اور متعلقہ وزارت کے درمیان کشیدگی شروع ہوگئی تھی، اس پر پارلیمنٹ میں بحث بھی ہوئی، متعدد آڈٹس اور تحقیقات بھی ہوئیں لیکن کسی کو بھی ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا۔

نیپرا کے ریکارڈ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزارت قانون اور انصاف مذکورہ منصوبے کو 4 سال تک تعطل کا شکار رکھنے کی ذمہ دار ہے جس کی وجہ سے اس منصوبے کی لاگت میں 160 فیصد اضافہ ہوا جو اصل لاگت 32 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 84 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی، اس عمل کے تحت وزارت نے قومی خزانے کو 113 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس رحمت حسین جعفری کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کی ترتیب دی گئی رپورٹ کے مطابق 'وزارت قانون، انصاف اور پارلیمانی امور نے دستاویزات کی تکیمل میں تاخیر کی، وزارت قانون کے ایگزیکٹو حکام کے اس غیر ذمہ دارانہ عمل کی وجہ سے، جو تاخیر کا باعث بنا، اپریل 2012 میں قومی خزانے کو تقریبا 113 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے'۔

یہ رپورٹ 7 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں