23 دسمبر 2016 کو پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے حیدرآباد کے قلعہ گراؤنڈ میں منعقد کیے گئے جلسے پر میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا مصطفیٰ کمال غدار بن جائیں گے۔

کالم میں میں نے کمال صاحب کو ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے آگہی دینے کی کوشش کی تھی اور انہیں مشورہ دیا تھا کہ خدارا واپس لوٹ جائیے، جس رستے پر آپ چل نکلے ہیں یہ وہی ڈگر ہے جس پر چل کر پچھلے لوگ بھی غدار ٹھہرے ہیں.

چوں کہ کمال صاحب بھی سیاست کے اُسی مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں جسے تیس سال پہلے متوسط طبقے کے نام پر کھولا گیا تھا، لہٰذا انہی نظریات و روایات کا سہارا لینا شاید کمال صاحب کی مجبوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹھیک 36 دن بعد 29 جنوری 2017 کو کمال صاحب کراچی میں ایک اور پاور شو کرتے دکھائی دئیے۔

اب اِس پاور شو میں کتنی پاور تھی اور کمال صاحب وہ پاور دکھانے میں کس حد تک کامیاب ہوئے، اِس سے ہٹ کر انہوں نے کراچی کے عوام سے کیا کہا، اِس پر بات کرتے ہیں.

یوں تو کمال صاحب کی کراچی جلسے میں کی گئی تقریر ایک روایتی تقریر تھی جس میں وہ اپنی حریف جماعت اور اس کے بانی کو نشانہ بناتے ہوئے تنقید کے نشتر چلاتے رہے، لیکن اِس دفعہ ان کی تقریر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ اب کی بار انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی ہدفِ تنقید بنایا جس میں انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اداروں پر بھی کھل کر لفظوں کے تیر برسائے، کراچی آپریشن سے لے کر سی پیک منصوبے پر اعتراضات اٹھائے۔

ایسا انہوں نے کیوں کیا اور اس کے پیچھے کیا سوچ کارفرما ہوسکتی ہے؟ ایک وجہ تو یہ محسوس ہوتی ہے کہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کا منظورِ نظر ہونے کی چھاپ لگی ہے۔ کراچی کے اکثر عوام یہی سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں مدد فراہم کر رہی ہے، لہٰذا جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرکے وہ عوام کے سامنے اِس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حیدرآباد اور کراچی کے جلسے میں کی گئی تقریر میں ایک مشترکہ بات یہ نظر آئی کہ انہوں نے بلدیاتی اداروں کی بہتر کارکردگی نہ ہونے کے سبب اپنے ورکرز کو منتخب بلدیاتی نمائندوں اور دفاتر کا گھیراؤ کرنے کی ہدایت کی تھی، جبکہ کراچی جلسے میں بھی انہوں نے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ایک ماہ کا الٹی میٹم دیا ہے اور یہ کہتے بھی سنائی دئیے کہ وہ 2018 کا انتظار نہیں کرسکتے جس سے یہ گمان بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں کمال صاحب تصادم کی راہ اختیار کرنے تو نہیں جارہے؟

قراردادِ کراچی کے نام سے جو مطالبات پیش کیے گئے اُن پر عملدرآمد ریاست کے لیے اتنا آسان نہیں جس میں سب سے پہلا اور اہم مطالبہ آرٹیکل 140 اے کے تحت مقامی حکومتوں کو اختیارات دیتے ہوئے انھیں بااختیار بنایا جانا ہے تاکہ غریب و متوسط طبقے کو شراکتِ اقتدار کا حصہ بناتے ہوئے ان کی دادرسی کی جاسکے۔ دوسرا مطالبہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مردم شماری کروائی جائے، تیسرا مطالبہ کرپشن کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں، چوتھا مطالبہ کراچی کے عوام کے لیے آئینی قانونی اور جمہوری حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، پانچواں مطالبہ کراچی کو صاف پانی، نکاسیءِ آب کا بہتر نظام، ٹرانسپورٹ کی جدید سہولیات، تعلیم کی بنیادی سہولتیں فی الفور فراہم کی جائیں، چھٹا مطالبہ کراچی کے عوام کے لیے میرٹ پر روزگار کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، ساتواں مطالبہ کراچی کی تعمیر و ترقی کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں. آٹھواں مطالبہ کراچی و حیدرآباد میں کیڈٹ کالج اور یونیورسٹیوں کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے. نواں مطالبہ سندھ سے کوٹہ سسٹم کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے.

بس یہی وہ شروعات ہے جہاں سے کمال صاحب ملک کے دو فیصد مراعات یافتہ طبقے وڈیروں جاگیرداروں سرمایہ داروں پرمشتمل ٹولے کو کھٹکنا شروع ہوجائیں گے اور ایک خاص وقت کے بعد غداری کے سرٹیفکیٹ سے بھی نوازے جائیں گے. میں کمال صاحب کے اسی دن کے لیے فکرمند ہوں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے تین گھنٹے کی فلم ایک بار دیکھنے کے بعد دوبارہ لگا دی گئی ہو۔

مطالبات کے حوالے سے دیکھا جائے تو بات نئے کاغذ پر پرانی تحریر کے مصداق ہے. یہ وہی مطالبات ہیں جن کے لیے تیس سال پہلے ایم کیوایم بنائی گئی تھی، جسے وہ عوام کی بھرپور حمایت کے باوجود تیس سالوں میں پورے نہ کرواسکی اور اب حال یہ ہے کہ اپنے بانی سے لاتعلقی کے بعد قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہے.

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کمال صاحب یہ مطالبات منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا پھر وہ بھی ایم کیوایم کی طرح تصادم کا راستہ اختیار کرکے ریاست سے غداری کے مرتکب قرار پاتے ہیں.

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Tipu Feb 08, 2017 02:25pm
A very good article