قومی ایئر لائن کا علاج کیا ہے؟

08 فروری 2017
پی آئی اے کو واپس عروج پر لانے کے لیے کسی انقلابی قدم کی ضرورت نہیں بلکہ صرف کامیاب ایئرلائنز کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
پی آئی اے کو واپس عروج پر لانے کے لیے کسی انقلابی قدم کی ضرورت نہیں بلکہ صرف کامیاب ایئرلائنز کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

قومی پرچم بردار فضائی کمپنی کا تنظیمی ڈھانچہ 60 کی دہائی میں مرتب کیا گیا تھا۔ اس وقت ایئر لائنز کا ڈھانچہ نہایت ہی سادہ ہوا کرتا تھا۔ ایئر لائنز کے زیرِ استعمال طیارے چھوٹے یا نیرو باڈی تھے جن کی مرمت، دیکھ بھال اور مارکیٹنگ آسان تھی۔ ایئر لائنز کی پرواز کے لیے حکومتوں کے درمیان معاہدے تھے۔ یوں ہر ملک کی قومی پرچم بردار فضائی کمپنی کو خصوصی تحفظ حاصل تھا۔

حالیہ دور میں ایوی ایشن انڈسٹری میں بہت بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ طیاروں کی ساخت مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔ عالمی ایوی ایشن قوانین اور اس سے منسلک ٹیکنالوجی میں کافی زیادہ تبدیلیاں آگئی ہیں مگر پی آئی اے کا انتظامی 1960 کی دہائی اور کاروباری ڈھانچہ 1980 کی دہائی میں پھنسا دیکھائی دیتا ہے۔

پی آئی اے کا یہ ڈھانچہ کس قدر فرسودہ ہو چکا ہے، اس کا احوال تو خود ادارے کی ایک ڈائریکٹر نے اپنی ای میل میں بیان کردیا تھا۔ پی آئی اے کی چند ماہ ڈائریکٹر سروسز رہنے والی تبسم عبدالقادر نے اپنے استعفیٰ میں ایئر لائین کے انتظامی ڈھانچے کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے پیشہ ورانہ ماحول کو زہر آلودہ قرار دیا تھا۔

پی آئی اے کو بحال کرنے کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں اس حوالے سے چند ایک تجاویز پیشِ خدمت ہیں:

سیاسی دباؤ کا خاتمہ

پی آئی اے کے اندر 80 کی دہائی میں سیاسی عمل دخل شروع ہوا۔ ایئر لائن میں حکومت کی براہ راست مداخلت شروع ہوئی، جس سے ایئر لائن کے اندر فیصلہ سازی کو شدید دھچکا پہنچا۔ حکومتوں نے ایئرلائن کو ایمپلائمنٹ بیورو سمجھ لیا۔ یوں سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملازمتیں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ملک میں سیاسی حکومتیں ہوں یا مارشل لاء، پی آئی اے من پسند افراد کو نوازنے کا ذریعہ بن گئی۔ حکومتوں نے نوازنے کے لیے ایسے افراد کو انتظامی عہدوں پر تعینات کیا گیا جو کسی طور پر بھی ایئر لائن چلانے کے قابل نہ تھے۔

مسلم لیگ ن کے ایم این اے شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر رہے۔ پی آئی اے کو خیر باد کہنے کے بعد انہوں نے اپنی ایئر لائن ایئر بلو کے نام سے بنا لی۔ شاہد خاقان عباسی کے دور میں پی آئی اے کے خسارے میں اضافہ ہوا، جبکہ ایئر بلو کامیابی سے چل رہی ہے۔

پی آئی اے کو سب سے بڑا مسئلہ وزیرِ اعظم اور صدرِ مملکت کے بیرونِ ملک دوروں کی وجہ سے پیش آتا ہے۔ کبھی پی آئی اے کو ان دوروں کے لیے ایئر بس اور کبھی بوئنگ 777 طیارہ فراہم کرنا پڑتا ہے۔

وزیر اعظم کے ایک دن بیرون ملک دورے کے لیے طیارے کو ایک ہفتہ آپریشن سے باہر کر دیا جاتا ہے، جبکہ ایک طیارہ اسٹینڈ بائی کے طور پر ہر دم موجود رہتا ہے۔

نواز شریف کے گزشتہ دورِ حکومت میں وزیر اعظم کے دوروں کے لیے ایک بوئنگ 737 طیارہ خریدا گیا تھا۔ وہ طیارہ یا کوئی دوسرا نیرو باڈی طیارہ مستقل طور پر وزیر اعظم اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کے لیے خریدا جائے اور پی آئی اے کے آپریشنل طیاروں کو استعمال نہ کیا جائے۔

سیاسی دباؤ کے تحت حکومت نے ایسے فیصلے بھی کیے جس سے پی آئی اے کو نقصان پہنچا۔ ان میں ترک ایئرلائن سے معاہدہ ہے جس کے تحت پی آئی اے نے استنبول کے لیے پروازیں بند کردی ہیں۔ جبکہ خلیجی ملکوں کی ایئر لائنوں کو حکومت میں شامل بعض افراد کے ذاتی مفادات کی وجہ سے خصوصی مراعات دی جا رہی ہیں۔ یہ تمام تر سیاسی مداخلت پی آئی اے کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

پی آئی اے کی مالی تنظیمِ نو

اس وقت قومی پرچم بردار فضائی کمپنی کی مالی حالت ابتر ہے۔ ایئر لائین پر 300 ارب روپے کا قرض ہے۔ اس کا ماہانہ خسارہ پانچ ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ خسارہ اور قرض اتنا بڑا ہے کہ اگر اس خسارے کو کسی بھی دوسری ایئر لائن پر منتقل کر دیا جائے تو وہ بھی بیٹھ جائے گی۔

باالفرض یہ مان لیا جائے کہ پی آئی اے منافع بخش ایئر لائن بن گئی ہے تو بھی اس قرض کو اتارنا بہت مشکل اور طویل مرحلہ ہوگا۔ اگر سالانہ ایک ارب روپے قرض کی ادائیگی کی جائے تو تین سو سال لگ جائیں گے۔ اگر ماہانہ پی آئی اے ایک ارب روپے قرض کی ادائیگی کرتی ہے تو بھی کم از کم 25 سال درکار ہوں گے۔

اس قرض کے حوالے سے حکومت متعدد اقدامات کر سکتی ہے۔ سب سے پہلی تجویز یہ ہے کہ حکومت نے جس طرح توانائی کے شعبے کے لیے 500 ارب روپے سے زائد کے گردشی قرضے ختم کیے تھے، اسی طرح پی آئی اے کے قرض کو بھی حکومتی قرض میں شامل کر دیا جائے اور پی آئی اے کو قرض سے پاک ایئر لائن بنا دیا جائے۔ پی آئی اے کے اکثریتی شیئرز حکومت کے پاس ہیں اور ایئر لائن کے منافع بخش ہونے سے حکومت کو ہی ڈیوڈنڈ کی صورت میں منافع منتقل ہوگا۔

مگر سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے پی آئی اے بحالی نے بھی کراچی میں پی آئی اے کے مرکزی دفتر کے اپنے حالیہ دورے میں پی آئی اے کے مسائل پر دی جانے والی بریفنگ میں خسارے اور قرض کے حوالے سے سوالات اٹھائے۔

کمیٹی کے رکن اور حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے نمائندہ سینیٹر جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے سوال کیا کہ پی آئی اے انتطامیہ کیا ضمانت دیتی ہے کہ اگر ایک مرتبہ پی آئی اے کا قرض ختم کر دیا جائے تو یہ دوبارہ پیدا نہیں ہوگا؟ اس کا جواب حکومت اور پی آئی اے انتظامیہ دونوں کے پاس نہیں ہے۔

دوسری صورت میں حکومت پی آئی اے پر دیوالیہ قوانین کا اطلاق کرتے ہوئے اس کو قرض دینے والوں کے حوالے کر دے اور قرض دینے والے اداروں کو شیئر کی ملکیت منتقل کر دے۔ اس معاملے میں سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ مالیاتی ادارے ایئر لائن بند کر کے اثاثوں کی فروخت کا فیصلہ کر سکتے ہیں جو تباہ کن ثابت ہوگا۔

تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پی آئی اے حکومتی ضمانت پر قرض کو بانڈز میں تبدیل کر دے جنہیں پانچ سال بعد یا تو سود کے ساتھ کیش کروایا جاسکے یا پھر انہیں شیئرز میں تبدیل کروایا جاسکے۔ اس تمام صورتحال میں پی آئی اے کی ملکیت میں حکومتی شراکت داری خود بہ خود کم سے کم ہوتی چلی جائے گی۔

پی آئی اے کی انتظامی تنظیم نو

جس وقت پی آئی اے قائم ہوئی اس وقت ایئرلائنز تمام تر ضروریات خود پوری کرتی تھیں۔ پی آئی اے نے پروازوں میں کھانا فراہم کرنے کے لیے اپنا فارم ہاؤس اور پی آئی اے شیور کے نام سے پولٹری فارم بھی شروع کیا تھا اور ہوٹلز بھی چلایا کرتی تھیں۔

ٓآج کل ایئر لائنز کا انتظام اس طرح کیا گیا ہے کہ وہ صرف اپنے مرکزی کاروبار پر براہ راست توجہ مرکوز رکھیں۔ جس میں مارکیٹنگ اور فلائٹ آپریشن شامل ہیں۔ باقی تمام تر کام ایئر لائنز کی ذیلی کمپنیاں سرانجام دیتی ہیں یا مکمل طور پر اسے دیگر کمپنیوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔

ماہرین کے خیال میں پی آئی اے کو ایک گروپ آف کمپنیز میں تبدیل کیا جائے، جس میں کور بزنس مدر کمپنی دیکھے جبکہ انجینئرنگ، فلائٹ کچن، پیسنجر اور گراؤنڈ ہینڈلنگ، کی الگ الگ کمپنیاں قائم کی جائیں اور ان تمام کمپنیوں میں پی آئی اے بڑی شراکت دار ہونے کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبے میں مہارت رکھنے والے اسٹریٹجگ سرمایہ کار کو شامل کیا جائے۔ ہر کمپنی براہ راست اپنے نفع اور نقصان کی ذمہ دار ہوں، اپنے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹر کے ماتحت کام کریں اور ان کمپنیوں کی مجموعی نگرانی مرکزی بورڈ آف ڈائریکٹرز کریں۔

اس طرح سے ہر شعبے کو ملنے والی خود مختاری اس شعبے کی ترقی کا باعث بنے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک ہی بورڈ آف ڈائریکٹر ہے جس کو مارکیٹنگ، انجیئنرنگ، فلائٹ آپریشن، پیسنجر ہینڈلنگ، گراؤنڈ ہینڈلنگ کے لیے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ بورڈ کے اراکین کی اکثریت ان شعبوں کی حقیقی ضروریات اور طلب سے ناواقف ہوتی ہے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی تاخیر کا شکار ہوتی ہے اور درست فیصلے بھی نہیں ہو پاتے ہیں۔

ایئر لائن کے شعبوں کو الگ الگ کمپنیوں میں تبدیل کرنے کا تجربہ امارات ایئر لائن نے اپنایا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ پی آئی اے کی قائم کردہ ذیلی کمپنیاں نہ صرف اپنی ایئرلائن کو ترجیحی خدمات فراہم کریں گی بلکہ دیگر ایئرلائنز کی بھی ہینڈلنگ کرسکیں گی۔ فلائٹ کچن کی کمپنی اپنی کیٹرنگ سروس بھی فراہم کر سکیں گی۔ انجینئرنگ کمپنی دیگر ملکوں کی ایئرلائنز سے طیاروں کی مرمت کے معاہدے کرسکے گی، اور یوں اپنے کاروبار کو وسعت دے پائے گی۔

ضرورت سے زیادہ افرادی قوت کی چھانٹی

پی آئی اے نے دنیا میں ایک عجیب ریکارڈ بھی قائم کیا ہے۔ دنیا بھر میں فی طیارے کے حساب سے سب سے زیادہ ملازم پی آئی اے میں کام کر رہے ہیں۔ مگر ان میں درست تعلیمی قابلیت کے حامل افراد کی کمی ہے۔ پی آئی اے کے پائلٹس کی تنظیم پالپا کے سابق صدر کیپٹن عامر ہاشمی کا کہنا ہے کہ پی آئی اے میں 1700 ملازمین کی اسناد جعلی ہیں مگر پی آئی اے انتظامیہ جان بوجھ کر ان کی تصدیق نہیں کروارہی ہے۔

پی آئی اے میں عسکری اداروں، پولیس، سول بیوروکریسی سے افراد کے انضمام کا عمل ختم کیا جائے اور اگر ان اداروں کے افراد کو پی آئی اے میں شامل بھی کیا جائے تو انہیں تمام تر ٹیسٹ اور اسناد کی تصدیق کے بعد ملازمت دی جائے۔

پی آئی اے کو درست انداز میں چلانے کے لیے بہتر اور اہل افراد کو پیشہ ورانہ ماحول میں کام کرنے کا موقع دیا جائے اور ایئر لائن کو اپنی ہیومن ریسورس پالیسی کو شفاف بنانا ہوگا۔

کثیر مراکز والی ایئرلائن بنایا جائے

دنیا کی بڑی ایئر لائنز کا جائزہ لیا جائے تو امارات، اتحاد، قطر ایئر ویز، ترکش ایئر، سنگاپور ایئر اور دیگر تمام کی تمام ایئر لائینز کا بین الاقوامی آپریشن ایک شہر اور ایک ہی ایئر پورٹ سے شروع اور وہیں ختم ہوتا ہے۔

یہ ایئر لائنز اپنے اپنے روٹس کے حوالے سے تمام دنیا سے مسافروں کو جمع کر کے اپنے ایک ایئر پورٹ پر لاتی ہیں اور پھر ہر مسافر کی حتمی منزل کے حوالے سے انہیں مختلف طیاروں میں سوار کیا جاتا ہے۔

ان ایئر لائنز کے ساٹھ فیصد سے زائد مسافروں کی اصل منزل حب ایئر پورٹ نہیں ہوتی بلکہ اس حب ایئر پورٹ کو بطور ٹرانزٹ ایئر پورٹ استعمال کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف پی آئی اے کو سیاسی بنیادوں پر انٹرنیشل پروازوں کے لیے مختلف شہروں سے آپریٹ کروایا جاتا ہے۔ پی آئی اے کے انٹرنیشل ایئرپورٹس لاہور، اسلام آباد، ملتان، سیالکوٹ، پشاور، کوئٹہ ہیں جبکہ پی آئی اے کا حب ایئر پورٹ کراچی میں ہے۔ جب تک پی آئی اے انٹرنیشنل پروازیں کراچی ایئرپورٹ سے پرواز کرتی رہی ایک منافع بخش ایئر لائن رہی۔

پی آئی اے کا شعبہ انجیئنرنگ اور فلائٹ آپریشن کراچی میں ہونے کی وجہ سے طیاروں کو عام دیکھ بھال کے لیے کراچی لانا پڑتا ہے۔ اس طرح طویل پرواز کرنے والے بوئنگ 777 طیارے بھی ڈومیسٹک روٹ پر پرواز کرتے ہیں، جس سے ان طیاروں کو نقصان پہنچتا ہے۔

پی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر فلائٹ آپریشن سے جب ایئر لائن کو ملٹی حب کر دینے کے حوالے سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرح اخراجات میں 60 فی صد تک کمی ہوسکتی ہے جبکہ آپریشنز میں بہت زیادہ بہتری آسکتی ہے۔

ملکی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال کی وجہ سے انٹرنیشنل ایئرپورٹس کو دوبارہ سنگل حب پر منتقل نہیں کیا جاسکتا، مگر پی آئی اے کو ملٹی حب ایئر لائین میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

اس مقصد کے لیے پی آئی اے کراچی کے علاوہ لاہور اور اسلام آباد کو حب قرار دے سکتی ہے۔ جہاں پر لائن مینٹیننس ہینگر قائم کیے جائیں اور طویل پرواز کرنے والے طیاروں کو انہی ایئرپورٹس سے دنیا بھر میں اس طرح بھیجا جائے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکنیکل فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ پی آئی اے اپنے لانگ ہال ایئر کرافٹس کو مخصوص ایئرپورٹس پر حب کرنے کے قابل ہوگا اس طرح نقصانات میں کمی ہوگی۔

ملازمین کی تربیت کی جائے

پی آئی اے کے تربیتی مرکز کو اپ گریڈ کرنا ہوگا۔ خطے کی تین بڑی ایئرلائنز اور مقامی سطح پر ہنر مند افرادی قوت کی دستیابی ایئر لائن انڈسٹری کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔

پی آئی اے نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ایک تربیتی مرکز تو قائم کیا ہے جس میں پائلٹس، فضائی میزبان، ایئر کرافٹ ٹیکنیشن، مارکیٹنگ، ٹکٹنگ، فلائٹ آپریشن اور دیگر ایوی ایشن کے شعبوں کی تربیت دی جاتی ہے مگر پی آئی اے کی گرواٹ کے ساتھ ساتھ اس تربیتی مرکز کی حالت بھی درگوں ہوگئی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تربیتی مرکز کو اپ گریڈ کیا جائے اور ضرورت پڑنے پر اس مرکز کو ایوی ایشن کالج یا یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جائے۔

یورنیورسٹی بنانے کی صورت میں حیدر آباد میں قائم سول ایوی ایشن کے تربیتی مرکز کاٹی کو بھی ضم کیا جاسکتا ہے۔ ایوی ایشن صنعت میں ہنرمند افرادی قوت کی تیاری سے پاکستان کے اندر نہ صرف ایوی ایشن کی صنعت ترقی کرے گی، بلکہ پاکستان دنیا کے دیگر ملکوں میں خصوصاً خلیجی ایئر لائنز کے لیے ہنرمند افرادی قوت فراہمی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تربیتی مرکز پی آئی اے کو بھی منافع بخش بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

فیئراسکائی پالیسی

حکومت کو پی آئی اے اور مقامی ایوی ایشن انڈسٹری کو بچانے اور پروان چڑھانے کے لیے اوپن اسکائی پالیسی کے بجائے فیئر اسکائی پالیسی اپنانی ہوگی۔

اوپن اسکائی کی وجہ سے بعض ایسی ایئرلائنز بھی قائم ہو گئی ہیں جن کے مرکز یا حب کے لیے مسافروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ایئر لائنز دنیا بھر سے مسافروں کو جمع کرتی ہیں۔ اپنے مرکزی ایئر پورٹ پر لاتی ہیں جہاں سے ان مسافروں کو حتمی منزل کے لیے دیگر پروازوں سوار کر دیا جاتا ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے جو مسافر براہ راست پاکستان سے برطانیہ کے لیے سفر کر رہا تھا، اب وہ امارات، قطر، اتحاد یا ترکش ایئر کے ذریعے پہلے ٹرانزٹ ایئرپورٹ کے طور پر ان ایئر لائنز کے حب ایئر پورٹس (دبئی، ابوظہبی، دوہا، استبول) پر پہنچایا جاتا ہے جہاں سے انہیں دیگر پروازوں کے ذریعے منزل کی جانب روانہ کیا جاتا ہے۔

اگر حکومت یہ سہولت ان ایئر لائنز سے واپس لے لے، تو پاکستانی ایئر لائنز کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ اسی پالیسی کے خلاف امریکی ایئرلائنز کی محنت کش نتظمیں لابنگ کر رہی ہیں اور وہ اوپن اسکائی کے بجائے فیئر اسکائی پالیسی اپنانے پر زور دے رہی ہیں۔ جس سے ٹرانزٹ ایئر پورٹس کی حوصلہ شکنی شامل ہے۔

یہ وہ چند تجاویز تھیں جنہیں پی آئی اے اور ملکی ایوی ایشن صنعت کی مجموعی بہتری کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ حکومت اور خود پی آئی اے کے فیصلہ ساز ان باتوں پر غور کریں گے اور ایئر لائین کی بحالی کے لیے مثبت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

تبصرے (3) بند ہیں

Shahzad Ahmad Feb 08, 2017 05:50pm
Pretty practical solutions. Good article.
Nadeem Feb 08, 2017 07:35pm
بہترین حل ہے نجکاری یا پھر اوپر سے نیچے تک تمام عملہ فوری تبدیل کردیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کوئی حل نہیں ہے۔
I.M. KHAN Feb 08, 2017 07:48pm
Our railway failed; steel mill failed; shipping failed; agriculture failed'; textile industries failed. How could one expect PIA would survive.