"اکتوبر کا دن تھا۔ جس طرح بھٹی سے نکل کر مکئی کے دانے سفید پھولے ہوئے بڑے اور ٹھنڈے نظر آتے ہیں، اسی طرح اکتوبر کا یہ دن تھا۔ بڑا، پھولا ہوا اور سفید۔ کچھ دنوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ گھڑیوں کے تابع نہیں ہوتے، اپنی گنجائش اور سماں کے مطابق گزرتے ہیں۔‘‘

4 فروری 2017 بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب ٹی وی پر چلتی ایک یک سطری خبر نے ساری توجہ اپنی جانب کچھ یوں مبذول کروائی کہ باقی ہر منظر گویا پس منظر بن گیا۔ ’داستان سرائے کا آخری مکین بھی چلا گیا‘۔

ذرا سے اختلاف کی جراؑت یہاں کرنا چاہوں گی گو کہ اختلافِ رائے رکھنے والے کو ہمارے معاشرے میں واجب القتل ہی سمجھا جاتا ہے، بس زبان سے کہنے میں کچھ عار ہے پر ہنوز گستاخی معاف۔

بانو قدسیہ جیسے ادیب بلاشبہ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں تو کیا یہ ایک بے مہر سانس کا ہی رشتہ ہے جو ہمیں ان نادر و نایاب لوگوں سے جوڑ کر رکھتا یے؟ قطعاً نہیں۔ ایک تخلیق کار تو امر ہوتا ہے اور وہ رہتی دنیا تک ہر بدلتے زمانے میں موجود رہتا ہے اپنی لازوال تخلیقات کی شکل میں۔ بانو آپا کبھی ہم سے بچھڑ ہی نہیں سکتیں وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی، ہاں ان کے ہمارے ساتھ رہنے کا انداز بدل جائے گا۔ اب ہم انہیں جسمانی طور پر نہیں تو روحانی طور پر ان کی تحریروں سے ضرور محسوس کر سکیں۔

ذرا راجہ گدھ جیسا شہرہؑ آفاق ناول اٹھائیے، پڑھنا شروع کیجیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہر سطر آپا کی خوشبو سے معطر نہیں ہے؟ کیا یہ پڑھنے کے بعد ان کے آس پاس ہونے کا احساس جاگزیں نہیں ہوتا؟

شہرِ بے مثال، توجہ کی طالب، حوّا کے نام، مردِ ابریشم، موم کی گلیاں، تماثیل، آتش زیرپاء اور ایسی بے شمار لافانی تصنیفات کا خزانہ جو داستان سرائے کی آخری مکین آپ کے لیے چھوڑ گئی ہیں، کبھی کھول کر پڑھیے اور جانیے کہ ادیب کیسے امر ہوتے ہیں۔

آپا کی ہر تصنیف عورت کے گرد نہیں بلکہ عورت کی محبت کے گرد گھومتی ہے۔ یہی محبت اس کے پاوؑں کی بیڑی بھی ہے اور یہی محبت اس کی طاقت بھی اور سمجھو تو ہتھیار بھی۔ یہی محبت عورت کی کمزوری ہے جو اس کو بے بس کر دیتی ہے پر محبت کے ہاتھوں پسپائی عورت کا مقدر نہیں بلکہ یہ وہ ہار ہے جو عورت بڑے فخر سے تسلیم کرتی ہے کیوں کہ وہ محبت کے بغیر نہیں رہ سکتی، اس کا خمیر ہی محبت سے اٹھا ہے، صرف محبت۔

اور بانو آپا نے اس محبت میں ضم ہو کر اپنی بات کو ثابت کیا۔ اشفاق احمد صاحب سے ان کی محبت بلکہ عقیدت آپ کے یا میرے دلائل کی محتاج نہیں تاریخ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کافی عرصہ پہلے میں ٹی وی پر ان کا ایک انٹرویو دیکھ رہی تھی جس کی ایک بات ذہن میں رہ گئی۔ ایک سوال کے جواب میں بانو آپا نے کہا تھا کہ میرے اندر کے ادیب کو نکھارنے والا، مہمیز دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ اشفاق احمد تھے۔

ہر شام گھر آنے کے بعد کبھی یہ نہیں پوچھا کہ کیا پکایا ہے، پر یہ ضرور پوچھتے تھے کہ آج کچھ لکھا کہ نہیں؟ بس یہی محبت ہے جو زندگی کا احاطہ کر لے تو انسان بانو قدسیہ کی طرح امر ہو جاتا ہے۔

اگر کسی سے کچھ مانگنا ہے تو محبت مانگو

محبت مل جائے تو سب کچھ مل جاتا ہے

محبت کے بغیر ہر چیز ایسے ملتی ہے

جیسے مرنے کے بعد کفن ملتا ہے

مگر

محبت بھی نہ مانگو

کیوں کہ مانگی ہوئی محبت کا مزہ

بگڑی ہوئی شراب جیسا ہوتا ہے

تبصرے (0) بند ہیں