کراچی: جہاں شہر میں ہونے والے حالیہ ٹریفک حادثات میں 6 سے زائد افراد کے جاں بحق ہونے پر صوبائی اور مقامی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہیں ٹریفک پولیس نے بھی شہر میں جاری درجنوں ترقیاتی کاموں کے آغاز سے قبل انھیں اعتماد میں نہ لینے پر سول انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرایا، جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں شیدید مشکلات کا سامنا ہے۔

کراچی کے کمشنر کو ٹریفک پولیس کی جانب سے لکھے گئے ایک خط میں شہر کے 45 انٹر سیکشنز اور سڑکوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں انھیں ٹریفک کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں ٹریفک جام اور جان لیوا حادثات ایک معمول بنتے جارہے ہیں۔

ڈی آئی جی ٹریفک کی جانب سے کمشنر کراچی کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ 'یہ بیان کیا جارہا ہے کہ کراچی میں شروع کیے جانے والے 22 ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں'، اس خط کی کاپیاں وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) آف سندھ پولیس کو بھی بھجوائی گئیں ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ 'یہاں یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ ایسے ترقیاتی منصوبوں کے آغاز سے قبل مقامی انتظامیہ کبھی بھی ٹریفک پولیس کو اعتماد میں نہیں لیتی اور نہ ہی ٹریفک کیلئے متبادل روٹ ہی فراہم کیا جاتا ہے، جس کے باعث ٹریفک پولیس کو سڑکوں پر موجود گاڑیوں کو مناسب انداز میں سنبھالنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں'۔

اس خط میں جن 22 مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جو ترقیاتی کاموں کے باعث متاثر ہورہے ہیں، ان میں 5 ضلع وسطی، 4 ضلع شرقی، 4 ضلع ملیر، دو ضلع غربی اور کورنگی کے دو مقامات شامل ہیں۔

خیال رہے کہ کراچی ٹریفک کی حالیہ صورت حال کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب حال ہی میں صرف ایک ہفتے کے دوران متعدد ٹریفک حادثات میں 6 افراد جاں بحق ہوگئے، یہ حادثات یونیورسٹی روڈ پر جاری سڑک کے تعمیراتی کام کے دوران ہوئے۔

3 فروری کو ایک حادثے کے دوران 3 خواتین جاں بحق اور ایک زخمی ہوگئی تھی۔

بعد ازاں 9 فروری کو ایک نامعلوم شخص اور جامعہ اردو کی 3 طالبات — رابعہ بتول، آمنہ بتول اور کرن شیرازی— بیت المکرم مسجد کے قریب قائم ایک بس اسٹاپ پر بس الٹ جانے کے باعث ہلاک ہوگئیں تھیں۔

ٹریفک پولیس نے خود کا دفاع کرتے ہوئے ان حادثات کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ پر ڈالی اور ترقیاتی کاموں کی خراب منصوبہ بندی اور شہر کے ٹرانسپورٹ کے نظام پر تنقید کی۔

سینئر افسر کا مزید کہنا تھا کہ 'ان 22 ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ شہر کے 26 مقامات پر تجاوزات قائم ہیں جہاں ٹریفک کی روانی تقریبا ناممکن ہے'۔

ڈی آئی جی ٹریفک کا مزید کہنا تھا کہ 'ان مقامات سے تجاوزات کو ہٹانے کیلئے متعدد کوششیں کی گئی تاہم یہ ٹریفک پولیس کے اختیار سے باہر ہیں، لیکن جو ادارے اس مسئلے کے حل کے ذمہ دار ہیں ان میں مقامی پولیس، کراچی میونسپل کارپوریشن، ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کنٹومنٹ بورڈز، صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ اور کمشنر آفس شامل ہیں۔

ان کے مطابق ان 26 مقامات میں شارع فیصل، ایم آر کیانی روڈ، چاند بی بی روڈ، یعقوب خان روڈ، مینسفیلڈ اسٹریٹ، پریڈی اسٹریٹ، ایم اے جناح روڈ، نواب صدیق علی روڈ، بزنس ریکارڈر روڈ اور ایس ایم توفیق روڈ شامل ہیں۔

یہ رپورٹ 14 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں