اسرائیل اور فلسطین تنازع: امریکا کا دو ریاستی حل سے انحراف

اپ ڈیٹ 16 فروری 2017
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے — فوٹو: رائٹرز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے — فوٹو: رائٹرز

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازع کے اختتام کیلئے دو ریاستی حل کے بین الاقوامی وعدے سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی ایک ریاست کا ساتھ دے سکتے ہیں اگر یہ امن کیلئے ہو۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق نئے امریکی صدر نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا وائٹ ہاؤس میں پرتپاک استقبال کیا اور دونوں ممالک کے درمیان نہ ٹوٹنے والے تعلق کی تعریف کی۔

اس کے علاوہ — تاہم انھوں نے نیتن یاہو پر یہودی بستیوں کی تعمیر کو کچھ عرصے کیلئے موخر کرنے پر زور دیا — ٹرمپ نے بین الاقوامی اتفاق رائے پر دو ریاستی وجود کا اصرار ختم کردیا۔

انھوں نے کہا کہ 'تو، میں دو ریاست کو ایک ریاست کے طور پر دیکھ رہا ہوں، اور میں وہ پسند کررہا ہوں جو دونوں فریقین کو پسند ہے، میں اس ایک سے بہت خوش ہوں کہ دونوں فریقین یہ چاہتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے کچھ دیر کیلئے سوچا کہ دو ریاستی حل کیسا دکھتا ہوگا اور شاید یہ دونوں کیلئے آسان ہو، لیکن ایمانداری سے کہوں کہ اگر اسرائیلی اور فلسطینی اس سے خوش ہیں تو میں بھی اس سے خوش ہوں'۔

اگر امریکا کے موقف میں یہ تبدیلی نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کو خوش کرنے کیلئے ہے تو فلسطینی پوزیشن کے حوالے سے ٹرمپ کے یہ خیالات ان کو خوش کردیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کی اس دلیل کہ، فلسطینی امن کے لیے تیار نہیں ہیں، کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ 'میں سوچتا ہوں کہ فلسطینوں کو اس نفرت سے نجات حاصل کرنی چاہیے جو انھیں انتہائی کم عمری سے سیکھائی جاتی ہے'۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انھیں انتہائی نفرت سکھائی جاتی ہے، میں نے دیکھا ہے جو انھیں سکھایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا آغاز اسکول سے ہی ہوتا ہے، اور انھیں اسرائیل کو تسلیم کرنا ہوگا۔

اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی اتحاد کی تعریف کی اور امن کیلئے اپنی شرائط کا اعلان کیا۔

انھوں نے کہا کہ 'پہلے فلسطینوں کو اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے، انھیں اسرائیل کی تباہی کے مطالبے کو بند کرنا ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دوسرا یہ کہ، کسی بھی امن معاہدے کے تحت اسرائیل کو مغربی دریائے اردن کے تمام علاقوں پر سیکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنا ضروری ہے'۔

خیال رہے کہ اس علاقے میں مغربی کنارے کا تمام حصہ شامل ہے جو ماضی میں ہونے والے بین الاقوامی معاہدوں میں تسلیم کی جانے والی فلسطینی ریاست کا اہم حصہ ہوسکتے ہیں۔

امریکی صدر کی جانب سے ان کی ریاست کے گذشتہ کے موقف میں کی گئی یہ تبدیلی نے عالمی طور پر فلسطینوں میں اضطراب اور مایوسی پیدا کردی ہے۔

فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے دوسرے اہم عہدیدار صائب ارکات نے مذمت کرتے ہوئے اس اعلان کو 'دو ریاستی حل کو دفنانے اور فلسطینی ریاست کو ختم کرنے' کی کوشش قرار دیا ہے۔

انھوں نے خبردار کیا کہ ابھر کر سامنے آنے والی کوئی ایک ریاست اسرائیل کے یہودی کردار کو کھو دے گی۔

ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'صرف ایک متبادل موجود ہے، ایک جمہوری ریاست جو سب کو برابر کے حقوق دے، جس میں یہودی، مسلمان اور عیسائی شامل ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں