امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے کل ایک نئے نظامِ شمسی کی دریافت کا اعلان کیا ہے جس میں سات سیارے موجود ہیں جو ہمارے سورج سے کئی گنا چھوٹے ایک ستارے کے گرد گردش کر رہے ہیں۔

دریافت ہونے والے ان سات سیاروں میں سے کم از کم تین ایسے ہیں جن پر سائنسدانوں کے مطابق زندگی کی ارتقاء کے لیے سازگار حالات موجود ہو سکتے ہیں۔

دریافت کیسے کی گئی؟

چلی میں موجود ٹریپیسٹ دوربین کا استعمال کرتے ہوئے سائنسدانوں نے مئی 2016 میں اس نئے نظامِ شمسی کے تین سیارے دریافت کیے تھے، جس کے بعد ناسا کی اسپٹزر خلائی دوربین، یورپیئن سدرن آبزرویٹری اور کئی دیگر زمینی دوربینوں نے اس نظامِ شمسی کا جائزہ لینا شروع کیا، جس کے بعد یہاں مزید سیارے دریافت ہوئے۔

چوں کہ سیاروں کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی اور وہ ستاروں کی روشنی منعکس کرتے ہیں، اس لیے انہیں براہِ راست دیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

نظامِ شمسی سے باہر موجود دیگر سیاروں کی تلاش کے لیے عام طور پر جو طریقہ استعمال کیا جاتا ہے اسے ٹرانزٹ فوٹومیٹری کہا جاتا ہے۔

اگر آپ نئے دریافت شدہ سیاروں میں سے کسی ایک پر اتر سکیں تو آپ کو شاید ایسا منظر دکھائی دے۔ بشکریہ NASA/JPL-Caltech
اگر آپ نئے دریافت شدہ سیاروں میں سے کسی ایک پر اتر سکیں تو آپ کو شاید ایسا منظر دکھائی دے۔ بشکریہ NASA/JPL-Caltech

جب بھی کوئی سیارہ اپنے ستارے کے گرد گردش کرتے ہوئے اس کے سامنے سے گزرتا ہے تو اس ستارے سے ہم تک آنے والی روشنی میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔ اگر آپ یہ حساب لگا لیں کہ اس ستارے کی روشنی میں یہ زوال ایک مخصوص عرصے کے بعد بار بار آ رہا ہے، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہاں کوئی سیارہ موجود ہے جو اس ستارے کے سامنے سے بار بار گزرتا ہے اور اس کی روشنی میں گراوٹ کا سبب بنتا ہے۔

اگر ایسے معاملے میں ستارہ بڑا ہے اور سیارہ چھوٹا ہے، تو اس کی روشنی میں گراوٹ بہت معمولی سی ہوتی ہے، مگر اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر سیارہ بڑا اور ستارہ چھوٹا ہو تو اس کی روشنی میں کافی گراوٹ ہوتی ہے۔ اس طریقے کا استعمال کرتے ہوئے اس ستارے اور سیارے، دونوں کے حجم کا درست حساب لگایا جا سکتا ہے۔

ستارے سے اس گردش کر رہے سیارے کا فاصلہ ناپنے کے لیے سائنسدان یہ دیکھتے ہیں کہ روشنی میں ہونے والی گراوٹ کتنی دیر تک باقی رہتی ہے۔ جو بھی چیز کسی مرکز کے گرد گردش کر رہی ہو، وہ مرکز سے جتنی دور ہوگی، اسے اپنا چکر مکمل کرنے میں اتنا وقت لگے گا۔ چنانچہ روشنی میں ہونے والی گراوٹ کے دورانیے کا حساب لگا کر سائنسدان یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ وہ سیارہ اپنے ستارے سے کتنے فاصلے پر موجود ہے۔

ذیل میں دیے گئے چارٹ میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ستارے کے سامنے سے کسی سیارے کے گزرنے پر اس کی روشنی میں گراوٹ ہوتی ہے۔

بشکریہ: ESO/M. Gillon et al.
بشکریہ: ESO/M. Gillon et al.

کیا ان سیاروں پر پانی موجود ہو سکتا ہے؟

اس سوال کا جواب فی الوقت ہمارے پاس موجود نہیں ہے لیکن سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ کسی بھی سیارے پر مائع پانی کی موجودگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیارہ اپنے ستارے سے اتنا قریب ہو کہ نہ تو پانی حدت کی وجہ سے بخارات بن کر اڑ جائے، اور نہ ہی اتنا دور ہو کہ پانی برف میں تبدیل ہو جائے۔

ہماری زمین کی طرح نئے دریافت شدہ سیارے اپنے ستارے سے اتنے فاصلے پر موجود ہیں کہ وہاں مائع پانی موجود ہو سکتا ہے۔

کیا ان سیاروں پر زندگی موجود ہے؟

ابھی ان سیاروں کے متعلق زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں لیکن ہمارے پاس چند ایسے اشارے ہیں جن کی مدد سے ہم یہ اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں کہ کس طرح کے سیاروں پر زندگی پنپ سکتی ہے اور کن پر نہیں۔

زمین پر زندگی کے پنپنے کے لیے ضروری ہے کہ آکسیجن دستیاب ہو۔ اگر ہمیں ان سیاروں پر آکسیجن کی موجودگی کے آثار ملتے ہیں تو ہم وہاں زندگی کے پنپنے کی توقع بھی کر سکتے ہیں۔

اس طرح کے سیاروں کی دریافت یوں تو کوئی نئی بات نہیں، ایسے سینکڑوں سیارے ہیں جن پر زندگی کے پنپنے کے لیے سازگار حالات موجود ہیں، مگر اس نئی دریافت کی خاص بات یہ ہے کہ آج تک ایسے اکا دکا سیارے تو دریافت ہوتے رہے ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے جب ایسا پورا نظامِ شمسی ایک ساتھ دریافت کیا گیا ہے جس کے کئی سیاروں کے بارے میں امکان ہے کہ وہ زندگی کے پنپنے کے لیے سازگار حالات رکھتے ہیں۔

ذیل میں دی گئی ناسا کی 360 ڈگری ویڈیو دیکھیے، اور اسے اپنے ماؤس کے ذریعے ادھر ادھر گھما کر دیکھیے کہ ان سیاروں میں سے ایک کی سطح پر کھڑے ہو کر کیسا نظارہ دکھائی دے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں