سندھ کول اتھارٹی (ایس سی اے) نے ضلر تھرپارکر میں پینے کے صاف پانی سے متعلق ’پاک اوسِز‘ سے معاہدے میں 30 مارچ تک توسیع کردی۔

معاہدے میں توسیع تھر کے مختلف علاقوں میں نصب کیے گئے 84 ریورس اوسموسز (آر او) پلانٹس کے کام جاری رکھنے کے لیے کی گئی۔

قبل ازیں پاک اوسز نے ای سی اے کی جانب سے معاہدے میں توسیع میں ناکامی کے باعث 15 مارچ کو یہ آر او پلانٹس بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

معاہدے کی مدت جون 2016 میں ختم ہوگئی تھی۔

سندھ کول اتھارٹی کے حکام نے پلانٹس چلانے میں دلچسپی رکھنے والی فرمز سے ٹینڈرز موصول ہونے تک پاک اوسز سے 30 مارچ تک پلانٹس چلانے کی درخواست کی ہے۔

پاک اوسز کے حکام نے ڈان کو بتایا کہ نئے ٹینڈرز کے لیے فرمز کو مدعو کیے جانے تک کمپنی نے پلانٹس چلانے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

سندھ انرجی کے سیکریٹری آغا واصف نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم چھٹی بار ٹینڈر دیئے جانے تک پلانٹس پر کام کر رہے ہیں، تاکہ صحرا میں نصب یہ پلانٹس صحیح طریقے سے کام کرتے رہیں اور تھر کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی ملتا رہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ کول اتھارٹی، یہی کام کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے عدم دلچسپی کے باوجود، یہ پلانٹس بند نہیں کرے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے بتایا گیا کہ پلانٹس یا تو دوبارہ اسی فرم کے حوالے کیے جائیں گے یا انہیں چلانے میں دلچسپی رکھنے والی کسی دوسری کمپنی کے حوالے ہوں گے۔‘

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Mar 16, 2017 07:09pm
السلام علیکم: تھر کے پلانٹس کی اصل صورتحال سپریم کورٹ کے حکم پر بنائے گئے پانی اور صفائی کے کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے معلوم کی جاسکتی ہے ، پاک اوسز کو سب سے زیادہ اور دیگر کمپنیوں کو بھی اربوں روپے ادا کیے گئے، یہ ہی کمپنی کراچی میں ایسے پلانٹس کے نام پر فنڈز لے رہی ہے جس کو کبھی چلایا ہی نہیں گیا، اس کے لیے کے الیکٹرک سے بجلی کے کنکشن تک کے لیے رجوع نہیں کیا گیا۔ دلچسپی رکھنے والے اگر تھر کے آر او پلانٹس نہیں دیکھ سکتے تو کراچی میں ہی ان پلانٹس کی حالت زار کا معائنہ کرلیں۔ کئی سال بند رکھنے کے بعد دس لاکھ گیلن فی دن کے بجائے 24 ہزار گیلن فی ہفتہ چلانا کہاں کی عقلمندی ہے۔[آپ اس کوایسا سمجھیں کہ اربوں روپے لگانے کے بعد ایک کارخانہ دس لاکھ روپے دن کے بجائے 24 ہزار روپے فی ہفتہ کما کردے]۔ کمیشن کی رپورٹ میں جاری کئے گئے فنڈر کی تفصیلات پڑھی جائیں تو انسان کی انکھیں کھل جاتی ہے ۔ برائے مہربانی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کردہ رقم کو خزانہ سمجھ کر لٹانا بند کردیا جائے۔ اسی طرح پہلے جاری شدہ رقم کا آڈٹ کرایا جائے۔ کمپنیوں کی عدم دلچسپی اس لیے ہیں کہ یہ بھاگنے کی تیاریوں میں ہیں۔ خیرخواہ