اسکول مسمار کرنے کا معاملہ: ایس ایچ او معطل، انکوائری کمیٹی قائم

شائع April 10, 2017
مسمار کیے جانے کے بعد جفل ہرسٹ اسکول کا ایک منظر—فوٹو: پی پی آئی
مسمار کیے جانے کے بعد جفل ہرسٹ اسکول کا ایک منظر—فوٹو: پی پی آئی

کراچی: سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شرقی فیصل عبداللہ نے سولجر بازار میں قومی ورثہ قرار دی گئی اسکول کی تاریخی عمارت کو مسمار کیے جانے کے معاملے پر تھانہ سولجر بازار کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) ارشاد سومرو کو معطل کردیا۔

اس سے قبل انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ نے کراچی کے علاقے سولجر بازار میں 100 سال پرانے اور قومی ورثہ قرار دیئے گئے اسکول کو گرائے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایڈیشنل آئی جی (اے آئی جی) پولیس ڈاکٹر آفتاب پٹھان کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی کو تین دن میں اپنی رپورٹ آئی جی پولیس کو پیش کرنے کی ہدایت دی گئی۔

آئی جی سندھ کے مطابق واقعے کی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے جبکہ اس واقعے میں پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

میڈیا سے بات چیت میں اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ تباہ کی گئی عمارت قومی ورثہ تھی اور جس نے بھی اسے تباہ کیا اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب چند نامعلوم افراد نے کراچی کے علاقے سولجر بازار میں واقع جفل ہرسٹ اسکول میں موجود 100 سالہ قدیم عمارت کو مسمار کردیا تھا، مذکورہ عمارت کو سندھ حکومت کے محمکہ ثقافت کی جانب سے قومی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

پولیس نے کردار ادا نہیں کیا، وزیر تعلیم

وزیر تعلیم سندھ جام مہتاب ڈہر کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں گے کہ آئندہ کوئی اسکول نہ گرایا جاسکے۔

مسمار کیا گیا اسکول —۔ڈان نیوز
مسمار کیا گیا اسکول —۔ڈان نیوز

وزیر تعلیم نے واقعے میں پولیس کی نااہلی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کو جو کردار ادا کرنا تھا، وہ نہیں کیا گیا، اسکول کی عمارت گرانا بڑا جرم ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کو عبرت ناک سزا دلائیں گے جبکہ اسکول کو مثالی تعلیمی ادارہ بنایا جائے گا۔

’پولیس افسران اور لینڈ مافیا کی ملی بھگت‘

ڈان سے گفتگو میں سیکریٹری تعلیم عبدالعزیز عقیلی کا کہنا تھا کہ اسکول کو منہدم کیا جانا چند پولیس افسران اور لینڈ مافیا کی ملی بھگت سے ممکن ہوا۔

طالبات ملبے پر ہی بیٹھ کر پڑھ رہی ہیں—۔ڈان نیوز
طالبات ملبے پر ہی بیٹھ کر پڑھ رہی ہیں—۔ڈان نیوز

سیکریٹری تعلیم کا کہنا تھا کہ اسکول کی عمارت پر قبضہ نہیں ہونے دیا جائے گا، ہماری کوشش ہے کہ اسکول کی باؤنڈری وال کو پہنچنے والا نقصان فوری طور پر ٹھیک کیا جاسکے۔

عبدالعزیز عقیلی کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر آئی جی سندھ سے رابطے میں ہیں اور اے ڈی خواجہ نے انہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رینجرز کی جانب سے بھی سرکاری املاک کو منہدم ہونے یا قبضے میں نہ جانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

مسمار ہونے کے باوجود سلسلہ تعلیم جاری

اسکول کی عمارت منہدم ہونے کے باوجود بھی جفل ہرسٹ اسکول کی طالبات نے ملبے پر ہی سلسلہ تعلیم جاری رکھا۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک طالبہ کا کہنا تھا، ’یہاں ہماری کلاس ہوتی تھی، اب ہمارے پاس پڑھنے کی کوئی جگہ نہیں، ہم باہر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں‘۔

اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے مطابق ان کی لاکھ درخواست کے باجود مسمار کرنے کے لیے آنے والے افراد نے عمارت کو منہدم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

ہیڈ ماسٹر کے مطابق ’مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور تھانے میں درخاست دینے کے باجود اسکول کی عمارت کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا‘۔

’پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان بلڈرز پارٹی ہے‘

سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم زمان نے ڈان سے گفتگو میں کہا کہ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی 'پاکستان بلڈرز پارٹی' ہے۔

ان کا کہنا تھا، ’پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں جو افراد شامل ہیں وہ کسی نہ کسی طرح بلڈنگ کے کاروبار سے تعلق رکھتے ہیں اور پارکوں اور اسکولوں کو بلڈرز مافیا کے حوالے کرتے جارہے ہیں‘۔

فہیم زمان کا کہنا تھا کہ سندھ میں تعلیم کی حالت انتہائی لاچار ہے اور یہ لگتا ہے کہ پارٹی صرف نعرے بازی کررہی ہے۔

سماجی کارکنان اور آرکیٹیکٹس کا ردعمل

سماجی کارکن اور آرکیٹیکٹ ماروی مظہر نے اپنے فیس بک پیغام میں قومی ورثے کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں یقین نہیں کرسکتی کہ مرکزی گھر تباہ ہوچکا ہے، اسے پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں منہدم کیا گیا‘۔

کراچی میں تاریخی ورثے کے ماہر فاروق سومرو کا ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اس اسکول کی اہمیت اس کے غور کرنے والے پر منحصر ہے، چند افراد کے لیے جفل ہرسٹ اسکول صرف ایک عمارت ہے جس کی کچھ معاشی اہمیت ہے لیکن دیگر کے لیے یہ ان روایات کی امین ہے جن کے ذریعے یہ شہر پھلا پھولا اور ایک اہم شہر بنا‘۔

لکھاری اور محقق اختر بلوچ کا جفل ہرسٹ کے مسمار ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’تمام بلڈرز غیرقانونی ہیں، ان پر کوئی نظر نہیں رکھی جاتی، یہ کراچی کے کئی قومی ورثوں کو تباہ کرچکے ہیں اور اگر انہیں روکا نہیں جاتا تو یہ سب کچھ تباہ کردیں گے‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسکول مالکان محمد شفیق اور اطہر نے بتایا تھا کہ ہفتے کی شب 40 سے 50 افراد نے جفل ہرسٹ اسکول میں واقع اس عمارت کو مسمار کرنا شروع کیا جس پر مقامی افراد نے متعلقہ تھانے اور محکمہ تعلیم کو آگاہ کیا۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا، ’ایس ایچ او سولجر بازار ارشاد سومرو پولیس اہلکاروں کے ہمراہ یہاں پہنچے اور مسمار کیے جانے کے کام کو رکوایا تاہم اُس وقت تک اس تاریخی عمارت کا بڑا حصہ تباہ ہوچکا تھا‘۔

محمد شفیق کے مطابق اتوار (9 اپریل) کی صبح ایک بار پھر اُن لوگوں نے یہاں پہنچ کر عمارت کو مسمار کرنے کا کام شروع کردیا۔

انھوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت 2012 میں ہی اس اسکول کو قومی ورثہ قرار دے چکی ہے اور اسکول میں واقع عمارت بھی اس کا حصہ تھی۔

یاد رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گذشتہ روز جفل ہرسٹ اسکول کی تاریخی عمارت کو پہنچنے والے نقصان کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری تعلیم اور سیکریٹری ثقافت سے رپورٹس طلب کی تھیں۔

انہوں نے سوال کیا تھا کہ کس نے ان افراد کو عمارت منہدم کرنے کی اجازت دی جب کہ اسے قومی ورثہ قرار دیا جاچکا تھا۔

وزیراعلیٰ نے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ ’یہ سازش یا شرارت‘ کرنے والا سزا سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025