یوم دستور پر سینیٹرز کی ملک میں فوجی مداخلت پرتنقید
اسلام آباد: سینیٹ میں 1973 کے آئین کی منظوری کے دن کو 'یوم دستور' کے طور پر بنایا گیا اور دونوں جانب کے سینیٹرز نے ملک میں ہونے والی تمام سابق فوجی مداخلت کی مذمت کی اور افسوس کا اظہار کیا کہ کسی ایک بھی ذمہ دار کو سزا نہیں دی گئی۔
سینیٹ میں بحث کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آئین کی منسوخی، عبوری آئینی احکامات (پی سی او) نافذ کرنے کا عمل اور لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے دن اب ختم ہوچکے ہیں تاہم تمام ریاستی اداروں کی جانب سے آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرنے کا عمل اب بھی مکمل نہیں ہوا۔
انھوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'کیا تمام ریاستی ادارے اپنی مرضی سے آئین کے ماتحت آچکے تھے، یہ ایک آمر کیلئے ممکن نہیں تھا کہ وہ غداری کے کیس میں صرف راولپنڈی کے ہسپتال میں داخل ہوکر قانون سے راہ فرار اختیار کرلیتا اور عدالتوں اور پارلیمنٹ کو ششدر چھوڑ دیتا'۔
انھوں نے کہا کہ آئین کے احترام کیلئے تعلیمی اداروں اور خاص طور پر فوج کے تعلیمی اداروں میں آئینی دستاویز کو ضروری قرار دیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں آئین کیلئے اسٹیبلشمنٹ میں کچھ احترام موجود تھا، اس موقع پر انھوں نے 1948 میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی جانب سے کوئٹہ میں افسران سے کیے گئے خطاب کا حوالہ دیا۔
قائد اعظم کا کہنا تھا کہ سینئر فوجی افسران آئین کی اہمیت کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتے جس پر وہ حلف اٹھاتے ہیں، پی پی پی کے سینیٹر کا کہنا تھا اس موقع پر قائد اعظم نے حلف پڑھ کر سنایا اور الفاظ کی اہمیت پر زور دیا۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'ایسی سوچ اب بھی موجود ہے جو یقین رکھتی ہے کہ وردی میں ملبوس شخص ایک عام شہری سے زیادہ حب الوطن ہوتا ہےاور ایک منتخب وزیراعظم 'سیکیورٹی مسئلہ' ہے'۔
سینیٹ کے اجلاس کی کارروائی کے دوران جبری گمشدگیوں کے معاملے کو بھی اٹھایا گیا۔
پی پی پی کے سینیٹر نے پوائنٹ آف آڈر پر بات کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کی جبری گمشدگی کے معاملے پر سینیٹ کی توجہ دلوائی اور ساتھ ہی سیاسی مقاصد کیلئے لوگوں کی جبری گمشدگیوں پر سنگین نتائج کیلئے خبردار کیا۔
خیال رہے کہ فرحت اللہ بابر پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ترجمان بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق ملزم کو گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے، لیکن جنھوں نے اشفاق لغاری اور غلال قادر مری کو اغوا کیا ہے، وہ آئین یا قانون کا احترام نہیں کرتے اور خود کو آئین سے بالا دست سمجھتے ہیں۔
فرحت اللہ بابر نے متعلقہ وزیر کو ایوان میں پیش ہو کر اس حوالے پر بیان دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر یہ دونوں کسی جرم میں ملوث ہیں، ان کے خلاف چارج شیٹ تیار کرکے انھیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے'۔
سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے پی پی پی کے سینیٹر کو اس معاملے کو انسانی حقوق کی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا کہا، جس کے فرحت اللہ بابر خود بھی رکن ہیں۔
اس موقع پر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست کی بجائے ایک سیکیورٹی ریاست بن چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہیں انھیں ہمیشہ چھوڑ دیا جاتا ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کرتی ہیں۔
سینیٹ کے اجلاس کے دوران سردار اعظم خان موسیٰ خیل وہ واحد سینیٹر تھے جنھوں نے آئین پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام مقامی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جانا چاہیے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینیٹر طاہر مشہدی نے پاکستان کے آئین کو دنیا کا سب سے بڑا آئین قرار دیا لیکن افسوس کا اظہار کیا کہ اس کی مستقل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ فوجی ٹریبونل کے فیصلے قانون اور ملکی آئین کے مطابق ہیں۔










لائیو ٹی وی
تبصرے (2) بند ہیں